بیوی کا غُلام ہوں، اس کا سامان اُٹھائے پھرتا ہوں ۔۔ بیویوں کو ایسا خدمت گُزار شوہر کیوں پسند ہوتا ہے؟ کچھ ایسی باتیں جو ہر پاکستانی بیوی کرتی ہے
میاں بیوی کا رشتہ زندگی بھر کا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے میں ہی دونوں کی بھلائی ہے۔ چھوٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کردینے سے اگر خوشحال زندگی گزرتی ہے تو اس میں کوئی مزاحقہ نہیں ہے۔ لڑائی جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہیں۔ لیکن خواتین یہ کیوں چاہتی ہیں ان کے شوہر بھی ان کے ساتھ مل کر گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں۔ ان کے آگے پیچھے گھومتے دکھائی دیں۔ خدمت گزار بنیں۔
سوشل میڈیا پر یہ تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص ساحلِ سمندر پر کھڑا ہوا کسی کا انتظار کر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں چپلیں بھی ہیں اور گلے میں خواتین کے پرس بھی لٹکے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ تصویر بنگلہ دیشی شخص کی ہے جو اپنی فیملی کے ہمراہ سمندر پر گھومنے آیا ہوا ہے اور اپنے گھر والوں کا سامان اٹھا رکھا ہے۔ 2 سال پہلے یہ تصویر لی گئی تھی جس میں موجود شخص سے جب بنگلہ دیشی میڈیا نے بات کی تو مذکورہ شخص نے بتایا کہ میں اپنی بیوی کا غُلام ہوں، اس کا سامان اٹھائے پھرتا ہوں۔ اس کی عزت کرتا ہوں۔ وہ میرا گھر سنبھالتی ہے تو کیا میرا فرض نہیں بنتا کہ اس کی خواہشات پوری کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ گھر والوں کے ساتھ بیوی کی عزت کرنا اور اس کی مدد کرنا ہر مرد کا فرض ہے۔ اس پر کوئی اگر مجھے غلام کہے تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کل خواتین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کہیں بھی جائیں ان کے شوہر بچوں کو سنبھالتے رہیں، سامان اُٹھائیں اور وہ مزے سے گھومتی رہیں۔ جبکہ یہ سوچ ہمارے معاشرے کو ہمارے گھروں کو غُلام بنا رہی ہے۔ بچے اور سامان اٹھانا کیا اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ خواتین نہیں اُٹھا سکتی ہیں؟ مرد کی ذمہ داریاں کچھ کم نہیں ہیں جو ان سے یہ توقع بھی کی جائے کہ وہ گھر کے کام بھی کریں۔ اپنی خوشی سے کوئی شوہر گھر کے کاموں میں حصہ لے وہ اس کی مرضی، لیکن زبردستی یا جبراً شوہروں سے گھر کے کام کروانے کا رواج محض چھوٹی سوچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مغربی معاشروں کو ہم طرح سے اچھا سمجھتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو وہاں سب اپنے کام سے مطلب رکھتے ہیں۔ کوئی کسی سے زبردستی کام نہیں کرواتا۔ لہٰذا خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی عزت کریں اور مرد حضرات اپنی بیگمات کا احترام کریں ان کا خیال کریں۔