جب ایک عیسائی بادشاہ نے انتہائی سخت سوالات۔۔۔
ایک دفعہ ایک عیسائی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے اور ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رُو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ ان میں سے ایک سوال تھا کہ ’’وہ کون سی قبر ہے جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ اور قب۔
ر اپنے مدفون کو سیر کراتی پھرتی تھی۔پھر وہ مردہ قبر سے باہر نکل کر کچھ عرصہ زندہ رہ کر وفات پایا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ ان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سوال کا جواب تحریر فرمایا۔ ’’وہ قبر جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ۔ وہ مردہ حضرت یونس علیہ السلام تھے اور
ان کی قبر مچھلی تھی جو ان کو پیٹ میں رکھے جگہ جگہ پھرتی تھی یعنی سیر کراتی تھی۔حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر عرصہ تک حیات رہے پھر وفات پائی۔‘‘حضر ت یونس علیہ السلام کا واقعہ جس کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایاتِ حدیث و تاریخ سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم عراق میں
موصل کے مشہور مقام نینوی میں بستے تھے۔ان کی تعداد قرآن کریم میں ایک لاکھ سے زیادہ بتائی ہے ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کو بھیجا، انھوں نے ایمان لانے سے انکار کیا،حق تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو آگاہ کر دو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر ع۔ذاب آنے والا ہے، حضرت یونس علیہ السلام نے قوم میں اس کا اعلان کردیا، قوم یونس نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہم نے کبھی یونس علیہ السلام کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا،
اس لئے ان کی بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔مشورہ میں یہ طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس علیہ السلام رات کو ہمارے اندر اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے گئے تو یقین کر لو کہ صبح کو ہم
پر ع۔ذاب آئے گا، حضرت یونس علیہ السلام با ارشاد خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے، صبح ہوئی تو ع۔ذابِ الہی ایک سیاہ دھوئیں اور بادل کی شکل میں ان کے سروں پر منڈلانے لگا اور فضاء آسمانی سے نیچے ان کے قریب ہونے لگا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم سب ہلاک ہونے والے ہیں۔