جملہ: “جس مصیبت میں جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا جائے تو وہ رحمت بن جاتی ہے” پر تبصرہ

سوال

کیا یہ جملہ : ” جس زحمت میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا جائے تو وہ رحمت بن جاتی ہے ” کہنا ٹھیک ہے؟ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنے کی فضیلت کا علم ہے؛ کیونکہ حدیث میں ہے کہ: (۔۔۔ تب تو تمہاری پریشانی کے لیے یہ کافی ہو جائے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔)لیکن کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تذکرے کو مشکل کشائی سے منسلک کیا جا سکتا ہے؟ کیا اللہ تعالی کی ذات مشکل کشائی کرنے والی نہیں ہے؟

جواب کا خلاصہ

ہمارے مطابق ایسے ذو معنی جملوں سے بچنا چاہیے؛ کیونکہ عقیدہ توحید کا تحفظ واجب ہے، اس لیے ایسے جملے استعمال کرنے چاہییں جن میں دہرا معنی نہ پایا جائے بلکہ وہ واضح جملے ہونے چاہییں۔ مثلاً: آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے سے پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ: جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت ہو گی وہاں آسانی اور آسودگی ہو گی۔

جواب کا متن

مشمولات

اول: کسی کام کو محال یا آسان بنانے کا اختیار صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ معاملات کو ممکن یا ناممکن بنانا صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کے ہاتھ میں ہے؛ یہ کام اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔

اس بارے میں ڈھیروں شرعی نصوص موجود ہیں جن میں یہ بات ثابت ہے۔

کیونکہ اللہ تعالی نے ہی انسان کے لیے شکم مادر سے باہر آنا ممکن بنایا، اور اسی نے ہی قرآن کریم کو حصولِ نصیحت کے لیے آسان بنایا ہے۔

جیسے کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
 قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (17) مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (18) مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ (19) ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ  
 ترجمہ: انسان تباہ ہو کہ وہ کتنا نا شکرا ہے! کہ اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا ہے؟ اسے نطفے سے پیدا کیا اور پھر اس کی تقدیر بھی لکھ دی اور اس کے بعد راستہ بھی آسان بنا دیا۔[عبس: 17 – 20]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
  وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ 
 ترجمہ: یقیناً بلا شبہ ہم نے قرآن کریم کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟ [القمر: 17]

یہ دیکھیں موسی علیہ السلام کو جس وقت اللہ تعالی نے حکم دیا کہ فرعون کے پاس دعوت دینے کے لیے جائے تو انہوں نے پروردگار سے اپنے معاملات کی آسانی کے لیے دعا کی اللہ تعالی نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
  اِذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (24) قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (25) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي  
ترجمہ: تم فرعون کی طرف جاؤ وہ سرکش بن چکا ہے، تو موسی نے کہا: پروردگار! میری شرح صدر فرما دے، اور میرا معاملہ آسان فرما دے۔[طہ: 24 -26]

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنے پروردگار سے رہنمائی اور ہدایت آسان ہو جانے کی دعا کرتے تھے۔

جیسے کہ سنن ترمذی: (3551) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : “نبی صلی اللہ علیہ و سلم دعا میں فرماتے تھے:  رَبِّ أَعِنِّي وَلاَ تُعِنْ عَلَيَّ ، وَانْصُرْنِي وَلاَ تَنْصُرْ عَلَيَّ ، وَامْكُرْ لِي وَلاَ تَمْكُرْ عَلَيَّ ، وَاهْدِنِي وَيَسِّرِ الهُدَى لِي  [ترجمہ: پروردگار! میری اعانت فرما میرے خلاف کسی کی اعانت نہ فرما، میری مدد فرما میرے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، میرے حق میں تدبیر فرما میرے خلاف کوئی تدبیر نہ فرما، مجھے رہنمائی عطا فرما اور میرے لیے ہدایت آسان بھی فرما دے۔۔۔] ” اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ: (3088) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ایک بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کسی صحابی کو سفر پر الوداع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے اللہ تعالی سے دعا کی کہ وہ جہاں بھی ہو اللہ تعالی ان کے لیے خیر میسر فرما دے۔

جیسے کہ سنن ترمذی: (3444) میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: “ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں سفر کرنا چاہتا ہوں، تو مجھے نصیحتوں کی صورت میں زاد راہ دے دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی آپ کو تقوی عطا فرمائے) اس صحابی نے کہ: مجھے اور زاد راہ دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی آپ کے گناہ معاف فرما دے)، اس صحابی نے پھر کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؛ مجھے مزید زاد راہ دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم جہاں بھی رہو اللہ تعالی وہیں آپ کے لیے خیر میسر فرما دے۔)” اس حدیث کو علامہ البانیؒ نے صحیح ترمذی: (2739) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کو ہر معاملے میں دعائے استخارہ سکھایا کرتے تھے، اس دعا میں بندہ اللہ تعالی سے اپنے معاملے میں بہتری ہو تو اس کام کے خیر سے مکمل ہونے کا سوال کرتا ہے۔

جیسے کہ صحیح بخاری: (7390) میں سیدنا جابر سے مروی ہے کہ: ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو تمام امور میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے بالکل ایسے ہی جیسے آپ انہیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، آپ فرماتے: (جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ،پھر کہے  اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيْمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الغُيُوبِ ، اَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ …- خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي – فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهِ  : اے اللہ ! میں تیرے علم کے واسطے سے اس کام میں خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے ہمت کا طلب گار ہوں، نیز تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوالی ہوں کیونکہ تو اس کی طاقت رکھتا ہے مجھ میں کوئی طاقت نہیں، تو ہی جانتا ہے میں نہیں جانتا، یقیناً تو ہی غیبوں کو خوب اچھی طرح جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام[یہاں اس کام بعینہ نام لے] میرے لیے دینی، معاشی اور انجام کار کے اعتبار سے بہتر ہے تو اس کام کو میرے مقدر میں بنا دے اور اسے میرے لیے آسان کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں میرے لیے برکت بھی ڈال دے۔ اور اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام[ یہاں اس کام کا بعینہ نام لے] میرے لیے دینی، معاشی اور انجام کار کے اعتبار سے برا ہے تو اس کام کو مجھ سے دور رکھ اور مجھے اس کام سے دور کر دے اور میرے لیے جہاں سے بھی ہو بھلائی مقدر کر دے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی فرما دے۔ “

کیونکہ کبھی بھی کوئی چیز اللہ وحدہ لا شریک کی اجازت کے بغیر آسان نہیں ہو سکتی، اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:   اَللَّهُمَّ لَا سَهْلَ إِلَّا مَا جَعَلْتَهُ سَهْلًا ، وَأَنْتَ تَجْعَلُ الْحَزْنَ إِذا شِئْتَ سَهْلاً   ترجمہ: یا اللہ! وہی کام آسان ہے جسے تو آسان بنا دے، اور تو ہی مشکل چیزوں کو آسان بناتا ہے۔) اس حدیث کو ابن حبان : (2427) میں روایت کیا ہے اور سلسلہ صحیحہ : (2886) میں اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: “ہر چیز اللہ تعالی سے ہی مانگو، حتی کہ جوتے کا تسمہ بھی اللہ سے مانگو؛ کیونکہ اگر اللہ تعالی نے اسے آسان نہ بنایا تو تسمہ بھی دستیاب نہیں ہو سکے گا۔”
اس حدیث کو مسند ابو یعلی: (4560) میں روایت کیا گیا ہے اور سلسلہ ضعیفہ : (3/540) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

دوم: “جس مصیبت میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا جائے تو وہ رحمت بن جاتی ہے” یہ جملہ ذو معنی ہے، اس کا مطلب صحیح بھی ہو سکتا ہے اور باطل بھی۔

سوال میں ذکر کردہ عبارت: “جس مصیبت میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا جائے تو وہ رحمت بن جاتی ہے” صحیح اور غلط دونوں معانی کا احتمال رکھتی ہے، چنانچہ اس احتمال کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کرنا چاہیے، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
پہلی وجہ: اس جملے میں یہ احتمال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلقا ذکر کرنے سے ہی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں؛ کیونکہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، واضح رہے کہ اس جملے میں یہ احتمال اس وقت ہو گا جب اس جملے کا قائل غالی صوفیوں جیسا عقیدہ نہ رکھے۔

دوسری وجہ : اگر اس جملے کا قائل یہ سمجھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تذکرے سے اللہ تعالی پریشانیوں کو ختم فرما دیتا ہے، مشکلات کو آسانیوں میں بدل دیتا ہے ، تو یہ معنی صحیح ہے۔

جیسے کہ عبد بن حمید رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں 170 پر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ: “اللہ کے رسول! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتا ہوں، تو میری مکمل دعا میں سے کتنا وقت آپ پر درود کے لیے مختص کروں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جتنا آپ چاہو)
انہوں نے کہا: ایک چوتھائی حصہ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جتنا آپ چاہو، اور اگر مزید اضافہ کر دو تو یہ بہتر ہے)
انہوں نے کہا: آدھا حصہ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جتنا آپ چاہو، اور اگر مزید اضافہ کر دو تو یہ بہتر ہے)
انہوں نے کہا: دو تہائی حصہ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جتنا آپ چاہو، اور اگر مزید اضافہ کر دو تو یہ بہتر ہے)
انہوں نے کہا: میں اپنی ساری دعا آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تب تو تمہاری پریشانی ختم کر دی جائے گی اور تمہارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے)”
اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے “صحیح الترغیب و الترھیب” (1670)میں صحیح کہا ہے۔

آخر میں ہم یہ کہیں گے کہ:
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ذو معنی جملوں سے بچنا چاہیے؛ کیونکہ عقیدہ توحید کا تحفظ واجب ہے، اس لیے ایسے جملے استعمال کرنے چاہییں جن میں دہرا معنی نہ پایا جائے بلکہ وہ واضح جملے ہونے چاہییں۔ مثلاً: آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے سے پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں اور مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ: جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت ہو گی وہاں آسانی اور آسودگی ہو گی۔

واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں