جوان بیٹوں کی موت نے ماں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے ۔۔ مجمعے کے ہاتھوں مرنے والے سیالکوٹ کے 2 بھائیوں کے گھر والوں کے زخم آج بھی تازہ

آپ جانتے ہی ہیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں انسان کی جان کسی طریقے سے بھی محفوظ نہیں جس واضح ثبوت 2010 کا واقعہ ہے جب سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ میں 2 بھائیوں کو لٹکا کر مار دیا گیا تھا۔

اب بات کرتے ہیں کہ ان پر کیوں یوں بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ 18 برس کے مغیث اور15 برس کے منیب پر چوری، ڈکیتی کاجھوٹا الزام تھا۔

جس کی وجہ سے انہیں اہل علاقہ نے ڈسکہ روڈ پر آج سے 11 سال پہلے ریسکیو 1122 کی عمارت کے قریب ہی ایک پانی کی ٹینکی ہے اور اس کے پرانے پائپ کے ساتھ ان دونوں بھائیوں کو باندھ دیا۔

سینکڑوں افراد کے مجمعے میں پولیس والے بھی موجود تھے ان کی موجودگی میں ان بھائیوں کو ٹینکی کے باہر لگے پائپ سے باندھا گیا اور اس قدر مارا کہ جسم کی کوئی ہڈی بھی سلامت نہیں رہی، اس دوران مغیث اور منیب ریسکیو اہلکاروں سے مدد مانگتے رہے لیکن کسی نے مدد نہ کی۔

مزید یہ کہ اس ازیت ناک واقعے پر انکے چچا ضرار بٹ کا کہنا ہے کہ ایک ماں باپ کیلئے اس سے بڑی اذیت کیا ہو گی کہ وہ اپنے جوان بچوں کو قبر میں اتار دیں یہی وجہ ہے کہ میری بھابھی اب نفسیاتی مریض بن گئی ہیں۔

اپنے اہلخانہ کے سامنے حوصلے سے بات کرتی ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ اندر سے ختم وہ گئی ہیں، اور اکیلے میں روتی رہتی ہیں۔

اور جہاں تک میرے بیرے بھائی کی بات ہے تو، اللہ پاک کی رضا سمجھ کر انھوں نے صبر تو کیا مگر ان کے چہرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس اذیت میں ہیں۔

ہمیں توقع تھی کہ عدالت سے کچھ انصاف ملےگا تو وہ ہمارے زخموں کا مداوا ہو گا مگر جب دس سال بعد ہی انھیں سپریم کورٹ سے رہائی ملی تو بہت دکھ ہوا۔

دونوں بھائیوں کو مارنے والے آزاد گھوم رہے ہیں :

مغیث اور منیب کے چچا زاد بھائی مغیر کا کہنا تھا کہ میں دوست کی دوکان پر بیٹھا تھا کہ میرے پاس آیا اور مجھے لگا کہ میں نے اسے پہلے کہیں دیکھا ہے اور اسے دیکھتے ہی میرا دماغ سن ہو گیا۔

یہی نہیں پھر اس نے مجھ سے کچھ پوچھا اور پھر وہ بھی چپ ہو گیا اور میں بھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو کچھ لمحے تک دیکھتے رہے۔

لیکن پھر وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا۔ اس کے بھاگنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ یہ تو انہی میں سے ایک ہے جنہوں نے مغیث اور منیب کو مارا تھا مگر وہ آج بھی ہم سب میں موجود ہیں، جانے قیامت کتنی دور ٹھری ہے مگر ہم نے اپنا فیصلہ اللہ پاک پر چھوڑ دیا ہے۔

آخر میں آپکو یہی بتانا چاہیں گے مغیر نے انہیں غسل دیتے وقت کیا محسوس کیا تھا، تو مغیر کا کہنا ہے کہ یوں معلوم ہو رہا تھا کہ پلاسٹک کے تھیلے میں روئی کے گالے بھر دینے ہوں، انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے مجھ پر کپکی طاری ہو رہی تھی۔

یہی محسوس ہو رہا تھا کہ انہیں ہاتھ لگانے سے کہیں انکا جسم پھٹ نہ جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں