حضرت علی پا ک کی 5باتیں جو آپ کی زندگی کو بدل کر رکھا دے گی
بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو اس کالم کو مذہبی کالم سمجھ کر نظر انداز کردیں گے۔ ہمارے معاشرے میں مذہبی شخصیات کا نام آتے ہی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ یا تو محفل سے اٹھ جائیں یا گفتگو کا رخ موڑ دیں۔ اس میں ان کا پوری طرح قصور بھی نہیں ہے کہ جس معاشرے میں مذہب کہ نام پر انتشار پھیلایا جائے وہاں کہ لوگ، خاص طور پہ نوجوان نسل کا یہ ردعمل، اور ان کا مذہب اور مذہبی اشخاص سے متعلق گفتگو سے دور ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن یہاں میں بات کرنے جا رہی ہوں اس شخصیت کی جس کی بدولت میری ذاتی زندگی، سوچ اور قوت ارادیت میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اس معاشرے میں جہاں لوگ مولانا رومی اور دیگر سکالرز کی باتیں سوشل میڈیا پر شیئر کرتے نظر آتے ہیں جس سے بہت سے لوگ استفادہ حاصل کرتے ہیں۔
وہیں مجھ جیسے چند افراد امام علیؑ کی ذات سے علم و معرفت اپنی جھولیوں میں بھر رہے ہیں۔ امام علیؑ کی ذات جنہیں رسولؐ خدا نے در شہر علم کہا کہ جن کے در سے تمام صوفی سلسلوں کے فیض کے بیش بہا خزانے جاری ہوتے ہیں، ہم ملنگوں کی زندگی ان کے علم و فیض کے چراغوں سے روشن ہے۔ امام علیؑ کے کہے ہوئے پانچ ایسے اقوال ہیں جنہوں نے اس نفرت زدہ تباہی پر گامزن معاشرے میں جہاں سوائے نفرتوں کہ کچھ نہیں پایا جاتا، میرے ہاتھوں میں ایک ایسی مشعل تھما دی ہے جس کی روشنی سے اس پر آشوب دور میں سفر آسان ہو گیا ہے۔ 1۔ “مظلوم کے حامی رہنا اور ظالم کے دشمن امام علیؑ کہ اس قول نے اس گتھی کو سلجھا دیا ہے کہ ظلم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، کسی بے گناہ کا قتل ہو یا کسی کے حق کا چھیننا، ہمارے دل ہمیشہ مظلوم کہ ساتھ رہیں اور ہماری نفرت فقط ظالم کے لئے۔ یہ قول اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرتا تو اس کی بات کو برداشت کر لیا جائے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ جو مظلوم ہو اس سے کوئی خطا سرزد نہ ہو۔
میرے لئے یہ قول زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ مظلوم کے لئے بلا جھجک آواز اٹھانا مجھے اس جملے نے سکھایا۔ بہت بار اس کے باعث مجھے نفرتوں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن روح مطمئن رہی اور ذہن آزاد محسوس ہوا۔ 2۔ “لوگ یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تم سے برابر ہیں” یہ بات صاف ہے کہ ہر شخص، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہمیں ہرگز حق نہیں پہنچتا کسی سے اس کے مسلک و مذہب کی بنا پر نفرت و تعصب رکھیں۔ ہر شخص جو انسانیت میں ہم سے برابر ہے اس کی عزت نفس، جان و مال کا خیال کرنا دوسرے انسان پر لازم ہے۔ پاکستان میں ہونے والے بیشتر واقعات ایسے ہیں جن میں مذہب کی بنا پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، اور ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہماری قوم بھی اس تعصب کی لپیٹ میں ہے۔ ہم اپنے مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ہی انسان سمجھتے ہیں اور باقی سب کو واجب القتل۔
ایسے آسودہ سوچ اور پست ذہنیت رکھنے والوں کے بیچ مجھ جیسے لوگوں کہ لئے امام علیؑ کا یہ جملہ شعور و فکر کو بلندی عطا کرتا ہے جہاں انسانیت ہر مذہب اور ہر فکر سے بالاتر نظر آتی ہے۔ 3۔ “تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے ایسا معاشرہ جو معاشی بدحالی اور بدامنی کا شکار ہو، جہاں رشتوں میں بے وفائی کے باعث بچے، جوان اور بوڑھے ذہنی دباؤ کا شکار ہوں۔ وہاں امام علیؑ کا یہ قول ذہن اور روح کو تازگی بخشتا ہے۔ آنے والے حالات سے مقابلہ کرنا اور مشکلات میں صبر سے کام لینا ہر ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے سے دور رکھتا ہے۔ جب کبھی دوستوں سے کج روی کا سامنا ہوا، رویوں کی تبدیلی دیکھی، ظلم دیکھا اور ظلم سہا، ایسے میں اپنے آپ کو حصول علم میں مشغول کر لینا۔
اور اپنی ذہنی اور علمی وسعت پر وقت صرف کرنا میرے لئے بہتر ثابت ہوا۔ 3۔ “دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو” بدلہ لے لینا آسان ہے لیکن معاف کر دینا مشکل۔ اس معاشرے کہ آدھے مسائل اس وقت حل ہو جائیں گے جب ہم ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھ جائیں گے۔ میرے لئے یہ قول ایک نگینے کی مانند ہے کہ جس کو میں نے اپنے گلے کا ہار سمجھ کر پہن لیا ہے۔ جس کے باعث مجھے رشتوں کو نبھانے میں آسانی پیش آئی۔ ہم بہت بار انسانوں پر رحم نہیں کھاتے اور بدلہ لینے میں پہل کرتے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی اختلاف کہ باعث ہو یا گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے، معاف کر دینا ایک ایسی طاقت ثابت ہوا جس کے باعث لوگوں کی جانب سے ملنے والی محبت اور عزت میں اضافہ ہوا۔ 4۔ “زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے” اس دنیا میں آدھے جھگڑے زبان کی کڑواہٹ کے باعث ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ جب اس سے کچھ نہیں بن پڑتا تو دوسرے انسان کو جملوں سے زدوکوب کرتا ہے۔
بہت بار کسی کا رویہ اتنا تکلیف دہ ہو جاتا ہے کہ ہم کہے بغیر رہ نہیں سکتے۔ میرے لئے اس قول میں یہ سبق چھپا ہے کہ اگر محبتوں کو قائم رکھنا ہے تو زبان کا استعمال تب کیا جائے جب ضروری ہو۔ یہاں یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ ظالم کے خلاف یہ زبان ایک درندے کی مانند ہی استعمال کی جائے کیونکہ الفاظ کے گھاؤ کبھی نہیں بھرتے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا شجاعت کی علامت ہے۔ 5۔ “دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے” اس قول سے مجھے ایک مقصد حیات ملا۔ یعنی جب تک میں خود میں مگن تھی میں سو رہی تھی اور جب میں نے خود کو دوسروں کے دکھ درد سے آشنا کیا تو میں نے اپنے ضمیر کو بیدار پایا۔ اس دنیا میں دوسروں کے دکھ درد سمجھنا مشکل اور اپنی زندگی میں مگن رہنا آسان ہے۔ امام علیؑ نے ایسی زندگی کو خواب غفلت کی نیند سے تشبیہہ دی ہے۔ جو شخص دوسروں کے کام نہ آیا اس نے ساری عمر خواب میں گزار دی۔ اور جس نے حق کہ لئے آواز اٹھائی وہی بیدار رہا۔