رمضان میں اپنی سحری کا ناشتہ بھی مجھے دے دیتے ۔۔ جیل کے مشکل حالات میں فجر کے وقت ملنے والا کھانا مسلمان سنجے دت کو کیوں دیتے تھے؟
مسلمان اس جہاں میں کہیں بھی ہوں ایک بہترین قوم ہیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ایک بہت مشہور ہندو کے وہ الفاظ ہیں جنہیں سن کر سینہ فخر چوڑا ہو جاتا ہے۔
ہم یہاں بات کر رہے ہیں بھارتی فلم انڈسٹری کے بابا کی جی ہاں آپ صحیح سمجھے ہیں ہم بات کر رہے ہیں سنجے دت کی ۔وہ کہتے ہیں کہ جیل میں گزارا ہوا وقت میری زندگی کا سب سے مشکل وقت تھا۔
مگر وہاں بھی لوگوں نے میری ہر طرح سے مدد کی خصوصاََ مسلمانوں نے کیونکہ جب صبح 4 بجے جیل میں گرم گرم چائے ملتی ہے تو وہ مجھ سمیت تمام ہندو دوستوں کو جگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی گرم چائے ملی ہے پیے گا ۔ یہ بات کرتے ہوئے وہ تھوڑا جذباتی ضرور ہو گئے تھے۔
اور ہو بھی کیوں نہ جو چائے اور کھانا مسلمان کو روزوں میں سحری کیلئے دی جاتی تھی وہ اپنے ہندو دست کو بھی پلاتے تھے۔یہ انکا بڑا پن تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہاں ہم سب ایک ہی ہیں اور یہ بھائی ہیں انکی بھی خدمت کرنی چاہیے۔
یہی نہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیل میں اپنے آ پ کو کنٹرول کرنا سیکھا اور بہت سے کام کیے جیسے گارڈننگ اور اخبارات کے چھوٹی چھوٹی تھیلیاں بنانا۔ میں اور میرا دوست دن میں 50 سے 60 اس طرح کی تھیلیاں بناتے تھے جس کے بدلے میں ہمیں 50 پیسے ملتے تھے اور یوں وہ کچھ دنوں بعد جب 500 بن جاتے تو یہ رقم میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی رقم ہوتی۔
مزید یہ کہ یہ سب باتیں انہوں نے ایک ہندوستانی میڈیا پر نشر ایک شو میں کہیں۔ یہی نہیں یہ بھی کہا کہ میں تو اپنے بچوں سے بھی نہیں مل پاتا تھا جو مجھے افسردہ کر دتی تھی پھر مجھے کسی نے سمجھایا یہ جیل یوں نہیں کٹی گی حوصلہ کرو۔
اس کے علاوہ جو کام میں یہاں دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر نہیں کر سکتا تھا وہ میں نے جیل میں کیے،مثلاََ اپنے مذہب کی تماما کتابیں پڑھ لیں تو مجھے بہت اچھا لگا۔