شادی کی پہلی رات میرا شوہر کمرے میں جلدی ۔۔۔؟؟؟

ت

سلیم بہت چنچل سی لڑکی تھی ایسی کہ ہر ایک کو ہنس کر بلانے والی اخلاق ایسا کے پہلی گفتگو میں ہی دل میں اتر جائے وہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ۔ ماں باپ کی لاڈلی اس کی ماں ثمرین جو کہ اسے دیکھ کر ہی جیتی تھی اور ابا محمد عارف گھر میں لائی گئی ہر چیز پہلے تسلیم کے سامنے رکھتے تھے۔

اور بھائی ان کی تو جان تھی تسلیم میں بھائی تو ویسے بھی بہنوں کامان ہوتے ہیں شان ہوتے ہیں وہاں تسلیم نے منہ سے بات نکالی نہیں کہ پوری بھی ہوگئی۔ وہ ایک مکمل اور خوشحال گھرانہ تھا بعض دفعہ حالات ایسے بدلتے ہیں کہ خوشیوں کی گمان بھی نہیں ہوتا۔صیحح کہا ہے کسی نے زندگی سب سے بڑا امتحان اسی سے لیتی ہے جو زندگی کا سب سے لاڈلہ ہوتا ہے۔

بلال تسلیم کی کالونی کا تھا تسلیم جب بھی کالج جاتی راستے میں آتے جاتے اسے دیکھتا تو مشکل سے ہی دل کو سنبھا ل پاتا۔ مگر عمر کا تقاضا ایسا ہوتا ہے کہ زند گی میں کب کوئی شخص اہم ہوجائے پتہ ہی نہیں چلتا کچھ ایسا ہی حال بلا ل کا تھا وہ اتنی خوبصورت تھی کہ کوئی اسے ایک نظر دیکھے تو دوبارہ دیکھنے کی خواہش کرے ۔

وہ کسی پری سے کم نہیں تھی بلال پڑھائی سے فارغ ہو چکاتھا اور نوکری نہ ملنے کے باعث محلے کے کونے پر کھڑا پایاجاتا تھا ایک دن تسلیم کالج کےلیے نکلی راستے میں بلال نے اسے روک لیا۔ وہ بہت گھبرا گئی تھی مگر بلال نے پروا کیے بغیر دو ٹوک الفاظ میں محبت کا اظہار کر دیا دن گزرتے گئے وہ روز بلال کو راستے میں کھڑا دیکھتی اور نظر انداز کر دیتی ۔

ایک دن بلال نے اسے پھر روکا اس نے تسلیم کا ہاتھ پکڑا تھا۔ تسلیم کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی ۔ تسلیم نے اپنا ہاتھ چھڑ وانے کی بے حد کو شش کی ۔ مگر بلال کی آنکھوں پیار تھا ۔ اس نے اسے ایک بار بات کرنے کاکہہ کر نمبر پکڑا اور ہاتھ چھوڑ دیا۔ رات کافی ہوگئی تھی مگر نیند تھی آنکھوں سے کوسوں دور کیسے آتی آسانی سے ۔ رات انہی سوچوں میں گزر گئی تسلیم کوروز اسے دیکھنے کی عادت ہوگئی تھی۔

دو دن ایسے ہی گزر گئے تسلیم کا دل بے چین ہوگیا تھا بلال میں جو وہ اس کی طرف کھینچ رہی تھی اس کی فکر کر رہی تھی ایسی کشش جو بلال کے نظر نہ آنے پر اسے تکلیف دے رہی تھی ہونا کیا تھا محبت کے نامعلوم جذبات نے تسلیم کو اپنے رنگ دیکھا ہی دئیے۔ تیسری رات تسلیم نے بلال کو کال کردی کچھ ہی پہلو میں ہیلو کی آواز نے تسلیم کی دھڑکنیں تیز کر دی وہ چپ تھی ایک بار ہیلو نے اسے چونکا دیا تم کہا ں تھے

دو دن سے وہ بے ساختہ بولی میں نوکر ی کی تلاش میں مصروف تھا وہ بنا پوچھے جان گیا تھا سوال کرنے والی کون ہے۔ وہ پرسکون ہوگئی تھی۔ بلال نے کا ل کی وجہ پوچھی وہ بولی مجھے تمہیں روز دیکھنے کی عادت ہوگئی ہے۔ دن گزرتے گئے محبت پروان چڑھتی گئی دونوں نے ایک دوسرے کےلیے جینا شروع کر دیا تھا۔ بلال ہر طرح سے اپنی محبت کی سچائی اس پر کھول چکا تھا۔ کوئی ایسا تہوار نہ ہوتا کہ دونوں ایک دوسرے کو تحفہ نہ دیتے کال پر ڈھیروں باتیں کر نا معمول بن گیا تھا۔

ایک دن تسلیم کالج گئی اور جیسے واپس آنا بھول گئی ہو ثمرین اور عارف سمیت اس کے تینوں بھائی پریشان تھے۔ لڑکی رات بنا بتائے گھر سے باہر رہے تو گھر والوں پر کیا گزرتی ہے انہوں نے ہر جگہ پتا کر لیا تھا مگر تسلیم کی کوئی خبر نہ تھی۔ دو دن بعد عارف کو کال آئی کہ فلاں ہوٹل سے اپنی بیٹی کو آکے لے جاؤجب ہوٹل پہنچے تو تسلیم کو بری حالت میں دیکھاتو جیسے کسی نے ان کے پیروں کے نیچے سے زمین ک۔ھینچ لی ہو، تسلیم شدید زخ۔می تھی

جسم۔ان۔ی اذی۔ت کا ش۔ک۔ار جگہ جگہ سگ۔ریٹ کے ک۔ش لگے ہوئے تھے۔ وہ تسلیم کو ہسپتال لے گئے ۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ تسلیم کو زی۔ادتی کا ن۔شانہ بنایا گیا ہے۔ اس روز بلال نے تسلیم کو کال کرکے ملنے کا کہا تھا اس کے منع کرنے باوجود بلال اسے منالیاتھا۔ کالج کے اختتام پر بلال اسے ایک ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں اس کے بارہ دوست موجود تھے ۔ تسلیم محبت کے پردے کے پیچھے بلال سمیت تیر ہ لڑکوں کی ہ۔وس کا ن۔ش۔انہ بنی اس معصوم کو تو خبر بھی نہ تھی۔

کہ بلال اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا۔ مگر شی۔طانوں میں انسانیت کہاں پائی جاتی ہے۔ پورے دو دن اس پر ظلم کرنے کے بعد بلال نے اس کے گھر فو ن کر دیا۔ جب محمد عارف نے ڈاکٹر کی بات سنی تو بے ساختہ منہ سے نکلا کہ میں زمین کے دو ٹ۔ک۔ڑے کرکے اس میں سما جاؤ ایک باپ کےلیے اس سے بڑ ھ کر اذیت کیا ہوسکتی ہے۔ کہ اس کی بیٹی زی۔ادتی کا ش۔ک۔ا ر ہوئی ہو۔

ایک ہفتہ ہسپتال میں گز ر گیا تسلیم کی طبیعت سنبھلی تو اسے گھر لے آئے عارف نے ثمرین تسلیم اور خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ اور چ۔پ چ۔اپ زہ۔ر کا پیالہ سامنے رکھ دیا ۔ثمرین اور تسلیم کو کہا کہ تم دونوں میں سے کوئی پی لے یا میں خود بھی لوں گا تسلیم کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ تھی وہ ماں باپ کی زندگی ع۔ذاب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔وہ جب زہ۔ر اٹھانے لگی تو ماں ت۔ڑ پ کر رو پڑی عارف نے بیو ی سے کہا اگر تم نے اسے روکا تو میں خود م۔رجاؤ ں گا سب مجبور تھے۔

تسلیم ایک ہی گ۔ھونٹ میں سارا زہ۔ر پی گئی اور کچھ ہی دیر میں وہ مٹی کے ڈھیر کے سوا کچھ نہ تھی۔ اس کی ساری خوشیا ں لاڈ پیار ع۔زت غی۔رت سب کچھ اس کے ساتھ ہی اس کی قب۔ر میں دف۔نا دیا گیا تھا ایک ہنستا بستا گھر زندہ لوگوں کا ق۔برستان بن گیا تھا بلال اور اس کے ساتھی آج بھی ج۔یل میں ہی۔

تسلیم کے بھائی اور باپ آج بھی تسلیم کی ق۔بر پر جا کے روتے ہیں اور کہتے ہیں کچھ غلطی تمہاری تھی کچھ غلطی ہماری تھی۔ ثمرین کی ماں کو اس 

اپنا تبصرہ بھیجیں