صرف میٹرس کا کرایہ اتنا زیادہ تھا کہ اتنے میں نیا آجائے، مری سے جان بچا کر نکلنے والی خاتون پر کیا گزری کہ گھر پہنچ کر شکرانے کے نفل ادا کیے


مری کے سانحہ کی خبر جب سے خبروں کے ذریعے سنی اور اس حوالے سے مختلف لوگوں کی رائے جانی تو میں نے سوچا کہ مری کے آنکھوں دیکھے حالات سے لوگوں کو آکاہ کروں تاکہ میرے تجربات سے سبق سیکھ کر اگر کوئی اپنی جان بچا سکے تو بچ جائے-میں اپنے بیٹے کی شادی کے لیے دسمبر میں کراچی سے پشاور اپنے خاندان کے ہمراہ گئی تھی ۔ جہاں میری فیملی کے دیگر ارکان رہائش پزیر ہوتے ہیں میرا نام عنبرین ہے اور اکلوتے بیٹے کی شادی کے مصروف ترین شیڈول سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑا آرام ملا تو پکنک منانے کا خیال آیا-
 
اگر آپ پشاور میں رہتے ہیں تو پھر فیملی کی پکنک یا چھٹیوں کی صورت میں سب سے آسان تفریح گاہ آپ کے لیے مری ثابت ہو سکتی ہے اور ایسا ہی کچھ راولپنڈی ، اسلام آباد کے رہنے والوں کا بھی ہے دسمبر کا مہینہ شادیوں کا ہوتا ہے اس وجہ سے خاندان کے سب لوگ اس موقع پر دوسرے شہروں سے بھی آکر جمع ہو جاتے ہیں اور شادی کے بعد خاندان کی گرانٹ پکنک کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ ہمارے خاندان میں بھی لاہور، کراچی کے تمام عزیز جمع تھے جن کا پر زور اصرار تھا کہ ان سب کو اسنو فال دیکھنا ہے
 
پروگرام کا آغاز مالم جبہ جانے سے شروع ہوا کیوں کہ سب کا یہی خیال تھا کہ نیو ائير، کرسمس اور چھٹیوں کے سبب مری میں بے انتہا رش ہو گا اور وہ جگہ فیملی کے ساتھ جانے کے لیے مناسب نہیں ہے مگر مالم جبہ کے خطرناک راستوں کے سبب قرعہ فال مری کے نام نکلا اور ہم سب نے اتوار 3 جنوری کو چھوڑ کر 4 جنوری کو مری جانے کا پلان کیا اور اس کے لیے کوسٹر بک کر لی-
 
ہمارے ساتھ تقریباً 30 افراد تھے ۔ پشاور کے خاندان والے ماضی کے تجربات کی وجہ سے اور مری کے لوگوں کے رویے کی وجہ سے بہت محتاط تھے اور انہوں نے کھانے پینے سے لے کر پینے کے پانی اور ادویات تک ہر چیز کا اسٹور اپنے پاس رکھا –
 
 
4 جنوری کی دوپہر جب ہم مری پہنچے تو رش کے سبب کوسٹر کا مال روڈ پر داخلہ بند کر دیا گیا اور کوسٹر کو نیچے ہی پارک کر کے ہمیں پیدل یا وہاں موجود سوزوکی گاڑیوں کے ذریعے اوپر کشمیر پوائنٹ کی جانب جانا پڑا-
 
وہاں موجود گاڑيوں کے مالکان نے صرف چند کلو میٹر سفر کے دو ہزار سے پانچ ہزار تک پیسے مانگنے شروع کر دیے جو کہ بہت بڑی رقم تھی نتیجے کے طور پر ہم نے بزرگ افراد اور بچوں کو تو اس گاڑی میں سوار کروا دیا اور باقی تمام افراد نے شارٹ کٹ سے پیدل ہی اوپر جانے کا فیصلہ کیا-
 
اسی دوران ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی جس نے سردی میں مزید اضافہ کر دیا منہ سے دھواں نکلنا اور اردگرد برف کا جما ہونا ہم کراچی اور لاہور والوں کے لیے بہت خوبصورت منظر تھا- مگر اسی دوران ایک بات جو نوٹ کی وہ بے تحاشا رش تھا جس میں زيادہ تعداد نوجوان لڑکوں کی تھی اور اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی سہولت کا نہ ہونا تھا-
 
مال روڈ پر پر طرف گاڑیوں کا سیلاب امڈا ہوا تھا جس کو وہاں موجود من چلوں نے بلاک کر رکھا تھا کہیں نوجوان رقص کر رہے تھے اور کہیں لوگ تصاویر لے رہے تھے۔ کشمیر پوائنٹ تک پہنچتے پہنچتے بارش کے ساتھ برف باری بھی شروع ہو گئی اور سفید برف کے گالے گرنا شروع ہو گئے-
 
 
اس شدید سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سب کی خواہش ایک کپ چائے یا کافی کی تھی جب اس حوالے سے کشمیر پوائنٹ پر موجود ایک ریسٹورنٹ پہنچے تو انہوں نے ہر ٹیبل کے ساتھ ایک انگیٹھی کا بھی انتظام کر رکھا تھا-
 
ٹیبل کے گرد دس کرسیاں تھیں وہاں بیٹھتے ہیں چائے اور کافی کا آرڈر دیا جو لوگ گاڑی میں کشمیر پوائنٹ تک پہنچے انہیں وہ چائے سو روپے کا ایک کپ اور کافی دو سو روپے میں ملی مگر جب پیدل چلنے والے کشمیر پوائنٹ تک پہنچے تو یہی چائے اسی ہوٹل میں برف باری کی شدت کو دیکھتے ہوئے دو سو روپے کپ اور کافی تین سو روپے تک ہو چکی تھی-
 
برف باری کو دیکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کہ رات میں کسی ہوٹل میں قیام کر لیتے ہیں اور رات یہیں گزارتے ہیں- برف باری کے آغاز کی خبر ارد گرد کےعلاقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور تیزی سے لوگ گاڑيوں میں بھر کر آنا شروع ہو گئے-
 
مگر ایک بار پھر کسی قسم کی انتظامیہ کی غیر موجودگی کے سبب گاڑيوں کی قطاریں بےہنگم انداز میں مال روڈ پر جمع ہونا شروع ہو گئيں- جس نے ہر طرف ٹریفک کو جام کر دیا جب ہوٹل کے کمروں کے بکنگ کے لیے ہوٹل انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ان کے رویے نے شدید مایوسی کا شکار کر دیا-
 
مال روڈ پر موجود تمام ہوٹل مالکان نے پہلے تو بکنگ فل کا عذر پیش کیا جب ان سے زيادہ درخواست کی تو انہوں نے دوگنی تین گنی قیمت پر ایک کمرہ اور دو سے تین میٹرس دینے پر آمادگی ظاہر کی- مگر ان کا کرایہ اتنا بتایا جس میں نیا میٹرس آرام سے خریدا جا سکتا تھا-
 
 
ہوٹل مالکان کے مطابق سنگل روم کا کرایہ بیس ہزار اور اضافی میٹرس کا کرایہ کمبل کے ساتھ پانچ ہزار تھا- اتنے افراد کے ساتھ وہاں رہنے کا مطلب لاکھوں روپے دینا تھا اسی وجہ سے ہم سب نے بڑھتی ہوئی برف باری کو دیکھتے ہوئے واپسی کا فیصلہ کیا-
 
شائد قدرت کو ہماری زندگی منظور تھی اس وجہ سے ہم لوگ رات آٹھ بجے جب واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو سیکڑوں گاڑياں مری کی طرف رواں دواں تھیں جو برف باری کی خبر سنتے ہی مری کی طرف بڑھ رہی تھیں-
 
مری میں تفریح گرمی اور سردی جاری رہتی ہے مگر وہاں کسی قسم کے پرائس کنٹرول کا نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے- اس کے ساتھ جب پورے ملک سے لوگ سیاحت کے لیے اس جگہ آرہے ہیں تو وہاں ٹریفک کنٹرول کا ڈیزاسٹر کنٹرول مینجمنٹ کا نظر نہ آنا باعث حیرت ہے-
 
سیکڑوں گاڑيوں کی موجودگی اور ٹریفک کنٹرول کے عملے کی غیر موجود گی بھی حیرت کا باعث تھی جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہاں حکومت کی کسی ‍قسم کی کوئی رٹ موجود نہیں ہے جو بھی ہونا ہے اپنی مدد آپ کے تحت ہونا ہے –
 
رات دو بجے جب ہم پشاور اپنے گھر پہنچے تو سب سے پہلے نوافل ادا کیے اور اگلی صبح کی خبروں میں مری میں ہونے والے سانحات کی اطلاع نے اس شکر گزاری میں مزید اضافہ کر دیا تاہم ان سانحات کو مؤثر منصوبہ بندی سے نہ صرف روکا جا سکتا تھا بلکہ جانوں کو بچایا بھی جا سکتا تھا-

اپنا تبصرہ بھیجیں