قدر کرنا سیکھں….
وہ اپنی باری کے انتظار میں بیٹها تها. ایک مشینی آواز گونجی اور سامنے لگی سکرین پر 74 کا لفظ ابھرا. اس نے جلدی سے اپنے اکلوتے 4 سالہ بیٹے اسد کو گود
میں اٹها لیا اور ڈاکٹر کے کمرے کی طرف چل پڑا.
اسلام و علیکم ڈاکٹر صاحب! و علیکم السلام بیٹهیئے..
اسلم صاحب آپ کے لیئے اچهی خبر ہے آپ کا بیٹا اب کینسر سے مکمل طور پر چھٹکارا پا چکا ہے. تمام رپورٹس
کلیئر آئ ہیں.
فرط جذبات سے اسلم کی انکهیں بهر آئ اس کو ایک ایک گزرا ہوا ہوا لمحہ کسی فلم کی طرح چلتا دکھائی دے رہا تها کیسے اس کے سر پر بم پهوٹا تها جب اس کی منتوں مرادوں سے 7 سال بعد ہوئ اولاد خون کی الٹی کر کے
بے ہوش ہو گئ . ہسپتالوں کے دهکے کهانے که بعد پتا لگا کے اس کو تو کینسر ہوگیا اور اس کا علاج صرف شوکت خانم سے ممکن ہے.
شوکت خانم، عمران خان کا ہسپتال نہی نہی وہ تو
صرف امیروں کا اور اپنی پارٹی کے لوگوں کا علاج کرتے ہیں اور میں تو ن لیگ کا ووٹر ہوں. اوپر سے پچهلے الیکشن میں محلے کا کونسلر بتا رہا تها کے وہاں تو بلڈ ٹیسٹ کے 10 ہزار روپے لیتے ہیں.
میں تو غریب مزدور ہوں علاج کے لیئے پیسے کہاں سے لاو گا. انہی سوچوں میں گم تها کے محلے سے قریشی صاحب آ گئے اور بیٹے کا حال احوال پوچها. دل کی ساری باتیں بتائ تو کہنے لگے اسلم بهائ
صبح میرے ساتھ شوکت خانم چلنا…
اور پهر 1 سال پہلے کی اس صبح مجهے اس بیٹے کی اپنی ماں سے محبت کا تاج محل دیکھنے کا موقع ملا جسے لوگ شوکت خانم کہتے ہیں اور اس محل میں میرے بیٹے اسد کا 100
فیصد مفت علاج مفت ہوا اور مجھ سے نہ کسی نے میری ذات پات اور نہ پارٹی پوچھی.
ابهی کل میرے بیٹے کو دیکهنے محلے کا کونسلر آیا تھا اور میرے بیٹے سے پوچھا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟
جواب ملا ” عمران خان