لارنس آف عریبیہ۔۔۔۔اک نہايت دلچسپ داستان
قارئین آج کے اس کالم میں ہم مشہور زمانہ جاسوس کرنل ولیئم عرف لارنس آف عریبیہ کی زندگی سے جڑے انتہائی دلچسپ واقعہ کا ذکرکریں گے جو شائد اس سے پہلے آپ نے کبھی نہ سنا ہو۔ یاد رھے یہ وھی مکار کردار تھا جس نے عربوں کا بھیس بدل کر ترکی کی عظیم سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کئے تھے۔ یہ تقریبا ایک صدی پرانا قصہ ہے۔
برٹش آرمی میں ایک کرنل تھا، کرنل نیڈو، وہ کسی اہم سرکاری زمہ داری پر لندن سے ہندوستان آیا تو اس نے واپسی سے قبل انڈیا کے مشاہدے کا فیصلہ کیا ، مزاج در ویشانہ تھا چنانچہ ایک عام سیاح کی حیثیت سے سیاحت کے لیے نکل کھڑا ہوا، ہندوستان کے مختلف شہروں ،دیہاتوں اور تاریخی مقامات سے ہوتا ہوا بلآخر گلمرگ جا پہنچا۔ اس وادی کے حسن نے اس کی آنکھیں حیرہ کر دیں۔ لوگ بتاتے ہیں کرنل نیڈو کو وه جگہ اتنی پسند آگئی کہ وه ہفتوں وهیں پڑا رہا۔
سارا دن کچے پکے راستوں ، بہار کی جھرنوں ، آبشاروں اور دهند میں لپٹے درختوں کی چھاؤں میں گھومتا رہا ، ایک روز عجیب واقعہ پیش آیا جب وہ گلمرگ کی سیر کر رہا تھا تو ایک گنوار گوجر لڑکی اس سے آ ٹکرائی،اسی ٹکراؤ نے وہ کام کر دکھایا جو پٹرول کے ڈرم میں ماچس کا شعلہ دکھاتا ہے یا تپتے توے پرگھی کی بوند دکھاتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کریل نیڈو اس معمولی سی لڑکی کے لیے پاگل ہو گیا، نوکری سے استعفی دے دیا۔ لندن کے مضافات میں اپنی وسیع جائیداد سے دستبر دار هو گیا اورسارے یار احباب چھوڑ دئیے۔ عشق آگے بڑھا تو لڑکا لڑکی نے شادی کا فیصلہ کرلیا لیکن وہ گوجر قبیلے کی شرطیں بڑی کڑیں تھیں پر نیڈو بھی اس لڑکی کے لیے ہر عذاب جھیلنے کو تیار تھا
چنانچہ اس نے سوٹ کی جبکہ پسینے میں ڈوبا بد بودار فرن پہنا گوجری زبان سیکھی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ بھیڑ بکریاں چرائیں، لکڑ ياں کاٹیں، چارے کے گھٹے اٹھائے جنگلی ریچھوں سے کشتی کی، مقامی نوجوانوں سے گتكا کھیلا اور سیاه اندھیری راتیں جنگلوں میں گزاریں تب جا کر قبیلے کی ریت رسموں میں اس اجنبی کی گنجائش پیدا ہوئی ۔ یوں نیڈو اور وہ گوجر لڑکی ایک طو یل آزمائش کے بعد یک جان ہو گئے ، شادی ہوئی ، دو سال بعد ایک بیٹی پیدا ہوئی ۔
کرنل بندہ سمجھدار تھا، لہذا اس نے پوری زندگی بھیڑ بکریاں چرانے کے بجاۓ بھیڑ بکریوں کا کاروبار شروع کر دیا، نیک نیت بھی تھا اور پڑھا لکھا بھی، چنانچہ کاروبار چمک اٹھا تو گلمرگ سے شہر اٹھ آیا، وہاں بکریاں بیچ کر ریسٹورنٹ بنایا، پھر ہوٹل اور پھر بڑے بڑے ہوٹل ۔ الغرض بیس برسوں میں اس کا شمار ہندوستان کے بڑے سرمایہ داروں میں ہونے لگا۔ ہم کچھ دیر کے لیے اس کہانی کو یہیں روکتے ہیں۔ برطانیہ کا بین الاقومی شهرت یافتہ کردار کرنل لارنس عجیب سخت جان شخص تھا۔ وہ بغیر کچھ کھانے پئیے ہفتوں صحرا میں زندہ رہ سکتا تھا صفر درجے سے نیچے جہاں پانی برف بن جاتا ہے، وہ وہاں گھنٹوں ننگ دهڑنگ کھڑا رہ سکتا تھا، تیز بہاؤ کے الٹ گھنٹوں تیر سکتا تھا، وہ بھوکے شیروں کے غاروں میں داخل ہوتے ہوئے چند سیکنڈ لگاتا تھا، غار میں ہاتھ ڈال کر سانپ کو پھن سے پکڑ کر باہر کھینچ لیتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ چاروں آسمانی کتابوں کا حافظ تھا عربی، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی اس روانی سے بولتا تھا کہ بڑے سے بڑا صاحب زبان بھی دھوکہ کھا جائے اتنا سحرالبیان تھا کہ مخاطب کی سانس تک بھی کھینچ لیتا تھا۔
شاید اس کی انہی خوبیوں کے باعث اسے “درندے کی چمڑی میں دانشور کا دماغ” کہا جاتا تھا۔ کرنل لارنس جب سلطنت عثمانیہ کی بغاوت کچل کر “ڈیزرٹ آف ڈیتھ” سے واپس لوٹا تو اسے کمانڈر کی طرف سے فورا ہندوستان پہنچنے کا حکم ملا اور وه اگلے ہی روز نئی دہلی کے لئے روانہ ہو گیا، جہاں نیا حکم اس کا منتظر تھا۔ قصہ مختصر جب وہ وائسرائے کے محل میں داخل ہوا تو وائسرائے سے اس کا اسی طرح استقبال کیا، جس طرح بڑی قومیں اپنے ہیروز کا کیا کرتی ہیں۔دن بھر کے جشن کے بعد جب رات نے دستک دی تو نشے میں چور وائسرائے نے اسے وہ حکم نامہ تھما دیا جس میں اس کی نئی ذمہ داری درج تھی۔ اس نے حکم نامہ پڑھا اور
کچھ دیر سوچ کر بولا” ھز ایکسیلینسی مجھے داڑھی بڑھانے کے لیے چند دن لگیں گے۔ آپ کسی ایسے مسلمان کا
بندوبست کر دیں جو مجھے اسلامی شعائر سکھا دے۔
وائسرائے نے سینے پر ہاتھ رکھا اور بولا آپ سمجھیں آپ
کا کام ہوگیا۔ کرنل اور اس کی ہندوستان آمد کے چھ ماہ بعد لاہور میں میں مدینہ شریف سے آنے والے ایک بزرگ کا
غلغلہ مچا۔شاہ جی جو پرانی انارکلی کے ایک تنگ و تاریک گھر میں رہتے تھے، بڑے قرآن فہم تھے الله تعالی نے گلا
بھی اچھا دیا تھا۔ لہذا جب قرآن کی تلاوت فرماتے تو چلتے قدم رک جاتے اور پرندے پرواز بھول جاتے تھے۔ دعاؤں میں اس قدر اثر تھا کہ جو کیھ دیتے تھے دوسرے ہی روز پورا ہو جا تا مهمان نواز اتنے کہ سارا دن لنگر جاری رہتا چنانچہ ہر وقت زائرین کا تانتا بندھا رہتا، اور ان کی شہرت تھی کہ پھیلتی ھی جا رہی تھی، یہاں تک کہ چھ ماہ میں ان کے مرید پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ا
ب ھم پہلی اور دوسری کہانی کو ملاتے ہیں۔ جب یہ شہرت پھیلتے پھیلتے گلمرگ تک پہنچی تو نیڈو جسے اب بزرگوں کی تلاش کا خبط ہو چکا تھا، شاہ جی سے ملنے لاہور جا پہنچا۔ جب آستانے پر حاضری دی تو شاہ جی نے نیم وا آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا “نیڈو ہم تمہارے کی منتظر تھے۔” کرنل نیڈو کے لیے شاہ جی کا فرمانا بڑا حیران کن تھا کیونکہ پچھلے ۲۳ برسوں سے لوگ اسے عبد اللہ کے نام سے جانتے تھے، بہر حال چند منٹوں کی اس ملاقات کے دوران عبداللّه (نیڈو ) شاہ جی کے ہاتھ بیعت ہو گیا جس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، سال چھ ماہ میں شاہ جی گلمرگ کا چکر لگا لیتے جبکہ ہر دوسرے تیسرے ماہ عبداللّه (نیڈو) ہفتہ دس دن کے لیے لاہور آ جاتا، انہی ملاقاتوں کے دوران کسی کمزور لمحے میں عبداللّه (نیڈو) نے اپنی پابند صوم و صلوت بیٹی شاہ جی کے عقد میں دینے کا فیصلہ کیا۔
شاہ جی سے جب گزارش کی گئی تو شاہ جی نے اس نیک کام کے لیے فورا حامی بھر لی یوں چند ہی روز میں عبد اللہ نے اپنی بیٹی عین سنت کے مطابق دو کپڑوں میں شاه جی سے بیاہ دی۔ شادی کے دو ہفتے بعد جب عبد الله لا ہور آیا تو بیٹی نے ان کے پاؤں میں گر کر رونا شروع کردیا۔ عبداللّه پریشان ہو گیا۔ بہر حال قصہ مختصر بیٹی نے باپ کوبتایا کہ شاہ جی کے بھیس میں یہ شحص “لارنس آف عریبیہ”ہے جو مسلمان نہیں یہودی ہے اور مسلمانوں میں فرقہ واریت کا زہر پھیلانے کے لیے ہندوستان آیا ہے۔
عبد اللہ (نیڈو) فورا شاہ جی کے حضور حاضر ہوا جہاں دونوں کے مابین طویل تکرار ہوئی ، جس میں لارنس آف عریبیہ نے نہایت ڈھٹائی سے نہ صرف سارے الزامات تسلیم کر لیے بلکے جو کرنا ھے کر لو والی دھمکیاں بھی دے ڈالیں ، قصہ محتصر لڑکی کو اندر بند کر دیا گیا۔ عبدالله کو دھکے دے کر بھگا دیا گیا اور شہر میں مشہور کر دیا گیا کے عبدالله ملحد ھے۔جو شحص اس کو جہاں دیکھے فورن قتل کر دے۔
عبداللہ رستم زماں “گاماں پہلوان” کے پاس گیا اور اسے ساری کہانی سنائی ۔ گاماں پہلوان ہونے کے ساتھ
ساتھ سچا عاشق رسول بھی تھا اور اسی وقت اپنے پٹھوں کے ساتھ پرانی انارکلی پہنچا ۔ شاہ جی کو گریبان
سے پکڑ کر باہر لایا اور تھڑے پر کھڑے ہو کر لارنس آف عریبہ کو پاؤں سے پکڑ کر الٹا لٹکا دیا اور اعلان کیا جب
تک شیخ عبداللہ کی بیٹی کو طلاق نہیں دیتا یہ یہی لٹکا رہے گا۔ الغرض چند گھنٹوں کی کوشش کے بعد شاہ جی نے
سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں نہ صرف اپنے سارے گناہوں کا اعتراف کیا کہ عبدالله کی بیٹی کو بھی آزاد کر دیا۔ بعد ازاں وه لڑ کی شیخ برادری کے ایک گورے چٹے نوجوان عبد اللہ سے بیاہی گئی جو بعد میں مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ “شیخ عبدالله” بھی بنے۔