مجھے رینگ کر صبح باتھ روم جانا پڑتا ہے! ڈاکٹر نے معذور ہونے کی پیشن گوئی کی۔۔ شعیب اختر نے اپنی صحت کے متعلق کیا اہم انکشاف کردیا؟
مجھے صبح رینگ کر باتھ روم جانا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے مجھے سیڑھیوں سے نفرت ہے۔ گراؤنڈ کو دیکھ کر ہی میری ٹانگوں میں درد ہونے لگتا ہے“
یہ الفاظ ہیں مشہور زمانہ پاکستانی فاسٹ باؤلر رہ چکے شعیب اختر کے۔ کون جانتا تھا کہ 1999 کے ورلڈ کپ سے دھوم مچانے اور اپنی دھواں دار باؤلنگ سے ہجوم کی دھڑکنوں ہر راج کرنے والے شعیب اختر زندگی میں کن مشکلات کا شکار رہے اور کرکٹ کے میدان میں آنے کے لئے انھوں نے کن صعوبتوں کا سامنا کیا۔ حال ہی میں غیر ملکی خبر رساں ادارے “دی سڈنی مارننگ ہیرالڈ“ کو انٹرویو دیتے ہوئے شعیب اختر نے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ ایسے انکشافات کیے ہیں جنھیں سن کر آپ بھی حٰران ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
ڈاکٹر نے کہا تھا کہ میں آدھا معذور ہوجاؤں گا
شعیب اختر نے بتایا کہ ان کی زندگی کا واحد سال جب انھیں درد نہیں تھا وہ 1999 تھا۔ میں چھ سال کی عمر تک چل نہیں سکتا تھا بلکہ رینگتا تھا۔ ڈاکٹر میری ماں سے کہتے تھے کہ یہ لڑکا آدھا معذور ہوجائے گا اور چل نہیں سکے گا۔
پہلے میچ میں دونوں گھٹنے ٹوٹ گئے تھے
اپنے ایک پرانے وی لاگ میں شعیب اختر نے انکشاف کیا تھا کہ ان کا اور ان کی والدہ کے ٹانگیں گھٹنے سے ٹیڑھی لگی ہوئی ہیں اور اسی حالت میں مسلسل کھیلنے کی وجہ سے ان کے گھٹنے اپنی جگہ سے ہٹ گئے جس کا انھیں گھٹنوں کی تبدیلی کا آپریشن کروانا پڑا۔ یہاں تک کہ جب انھوں نے 1997 میں پہلی بار میچ کھیلا تھا تو ان کے دونوں گھٹنے ٹوٹ چکے تھے اور ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ان کے پاس صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے اس کے بعد وہ کرکٹ نہیں کھیل سکیں گے۔
میں غسل خانے میں ہی سوجاتا تھا
اپنی ٹانگوں کی تکلیف کے بارے میں شعیب کا کہنا ہے کہ ان کے بائیں گھٹنے می 42 انجیکشن اور دائیں جانب 62 جاب لگے ہوئے ہیں۔ مشہور کھلاڑی نے اپنے تلخ تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ “”میں برف کے غسل میں سو جاتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ساتھی مجھے جگاتے اور کہتے، ‘صبح کے چار بجے ہیں، باہر نکلو اور بستر پر جائو’۔ میں اپنی چوٹیں چھپاتا تھا۔ سخت مقابلہ تھا اور میڈیا سمجھ نہیں پائے گا کہ میں باقاعدگی سے کیوں نہیں کھیلتا“
کوئی میرا ریکارڈ توڑے تو گلے لگانے والا پہلا شخص ہوں گا
شعیب اختر نے اپنی پرفارمنس کے حوالے سے کہا کہ لوگ یاد رکھتے ہیں کہ آپ نے کس جذبے سے کھیلا یہی وجہ ہے کہ 1999 کا ورلڈ کپ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ وہ بچے جو اس عرصے کے بعد پیدا ہوئے وہ بھی مجھے جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سر ہم نے آپ کو ویڈیوز میں دیکھا ہے اس لئے ہم آپ کو جانتے ہیں اور آپ کے مداح ہیں۔ نئی نسل کے حوالے سے ان کا پیغام ہے کہ “کوئی ایسا شخص ہو جو باؤلنگ میں میرا ریکارڈ توڑے تو میں اس کو گلے لگانے والا پہلا شخص ہوں گا“