مجھے لگا کہ شاید یہ میرا آخری آپریشن ہو… ایک ایسا آپریشن جسے کرتے ہوئے ڈاکٹروں بھی اپنی سانس روک لی لیکن پھر معجزہ ہوگیا
‘شروع میں تو مجھے حوصلہ تھا مگر جب دو، تین ہسپتالوں سے انکار ہوا تو میں سوچنے لگا کہ اب میرا آخری وقت آ چکا ہے۔’
کراچی سے تعلق رکھنے والے افتار حسین شاہ کی آنکھ کے بالکل قریب چاقو جڑا ہوا تھا اور ایک کے بعد ایک ڈاکٹر ان کے علاج سے انکار کر رہا تھا۔
‘ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ صورتحال نازک ہے، آپریشن پیچیدہ ہے ہم یہ نہیں کرسکتے۔‘
اس کا تیز دھاری حصہ جو کہ کم از کم پانچ انچ کا تھا، پورا کا پورا اندر چلا گیا تھا۔
کراچی کے جناح ہسپتال میں آنکھوں کے وارڈ میں داخل 32 سالہ افتار بتاتے ہیں کہ یہ چاقو انھیں ایک گھریلو جھگڑے کے دوران آنکھ کے قریب لگا تھا۔ اس واقعے کا مقدمہ کراچی کے اتحاد ٹاؤن تھانے میں درج کیا گیا ہے۔ افتار حسین شاہ کا الزام ہے کہ وہ گھر میں بیٹھے کسی معاملے پر بات چیت کر رہے تھے جب مبینہ طور پر ان کے بہنوئی نے انھیں قریب ہی پڑی چھری سے مارا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ملزم کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چاقو لگنے کے بعد افتار حسین شاہ کے اہل خانہ انھیں قریب ترین ہسپتال لے گئے جہاں انھیں ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی مگر علاج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ اس پوزیشن میں موجود چاقو کو باہر نکالنا ان کے بس میں نہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ مایوسی کے اس عالم میں جناح ہسپتال میں ڈاکٹر سارہ احمد نے انھیں تسلی دی۔
وہ کہتے ہیں ‘مگر میں سوچ رہا تھا کہ شاید یہ آپریشن میرا آخری آپریشن ہو۔ جب ہوش آیا تو میں نہ صرف ٹھیک ٹھاک تھا بلکہ مجھے نظر بھی آ رہا تھا اور بتایا گیا ہے کہ کوئی پچیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی۔’
ایک منفرد کیس
افتار حسین شاہ کو جب جناح ہسپتال پہنچایا گیا تو وہاں پر ’آئی وارڈ‘ میں اس وقت آنکھوں کی چار سالہ سپیلائزیشن حاصل کر رہی خاتون ڈاکٹر سارہ احمد ڈیوٹی پر موجود تھیں۔ ڈاکٹر سارہ احمد تین سالہ تربیت مکمل کر چکی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ‘جب میں نے مریض کو دیکھا تو مجھے جھٹکا لگا کہ یہ کیا ہوا ہے۔
‘ہمیں تربیت کے دوران مختلف کیسوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اگر اپنے سینیئر کے ساتھ کوئی کیس کرنے کا موقع نہ بھی ملے تو پھر بھی مختلف کیسوں کے بارے میں سینیئرز کے تجربات سے متعلق معلومات ہوتی ہیں۔ مگر ایسے کیس کے بارے میں تو سنا ہی نہیں تھا۔’
ڈاکٹر سارہ احمد کہتی ہیں کہ ‘میں نے فوراً مریض کا معائنہ کیا۔ اس کی جسمانی اور ذہنی حالت کی جانچ کی۔ وہ جسمانی طور پر بالکل ٹھیک تھا۔ اس کو فی الفور کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ذہنی طور پر اس کا مورال گرتا جا رہا تھا۔ وہ ڈپریشن کی حالت میں چلا گیا تھا۔’
وہ کہتی ہیں کہ ‘ابتدائی معائنے وغیرہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ مریض کا آپریشن فی الفور ضروری ہے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
‘اس کے لیے میں نے اپنے سینیئر ڈاکٹر عزیز الرحمن اور ڈاکٹر وجے کمار کو اطلاع دی۔’
کیس کو سٹڈی کرنے کے بعد انھوں نے سپیلائزیشن کر رہے ڈاکٹر محبوب داد کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ ڈاکٹر سارہ احمد کے ہمراہ فی الفور سرجری کریں۔
’چاقو نے کسی بھی حصے کو متاثر نہیں کیا تھا‘
ڈاکٹر محبوب داد کہتے ہیں کہ ‘میں نے ڈاکٹر وجے کمار کی نگرانی میں آنکھوں کے مدار کے حوالے سے خصوصی طور پر پڑھا ہوا تھا۔
‘ابتدائی طور پر جو ایکسرے کیا تھا اس میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ چاقو کہاں تک گیا ہے اور اس نے کہاں تک کیا کیا نقصان پہنچایا ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘مریض کا سی ٹی سکین کروایا گیا تو اس میں پتا چلا کہ چاقو آنکھ کے قریب سے گزرتا ہوا ناک کے راستے، حرام مغز اور پھر گلے تک پہنچ چکا تھا۔ چاقو کسی ایک حصے تک محدود نہیں رہا تھا۔’
ڈاکٹر محبوب داد کہتے ہیں کہ ‘اس میں حیران کن بات یہ تھی کہ چاقو نے کسی بھی حصے کو متاثر نہیں کیا تھا۔ اس کی آنکھ بھی محفوظ تھی۔ آنکھ سمیت ناک، حرام مغز، گلا اور اس حصوں میں موجود شریانیں محفوظ اور ٹھیک تھیں۔ یہ مریض کی انتہائی خوش قسمتی تھی۔’
ان کا کہنا تھا کہ ’اب صورتحال یہ تھی کہ عملاً یہ سرجری تو آنکھوں کی بنتی تھی مگر اس میں ناک، گلے اور دماغ کا معاملہ بھی تھا۔ اس لیے ہم نے ان تینوں وارڈوں کے ڈاکٹرز کو بھی دوران آپریشن کال کی تھی کہ اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے تو اس سے وہ نمٹیں گے۔‘
خوش قسمت مریض اور صرف ایک چانس
ڈاکٹر محبوب داد کہتے ہیں کہ ’چاقو لگنے سے تو مریض کو کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا جو کہ بہرحال ایک حیرت انگیز چیز تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آنکھ کے حوالے سے خدشہ تھا کہ اس کی آنکھ کو کوئی نقصان نہ پہنچ پائے، ابھی تک اس کی آنکھ میں خون اکٹھا نہیں ہوا تھا جو کہ بہت بہتر علامت تھی مگر آپریشن کے دوران ایسا خدشہ موجود تھا۔ جس کے لیے ہم نے متبادل منصوبہ بنا رکھا تھا۔’
ڈاکٹر محبوب داد کہتے ہیں کہ ‘اسی طرح ناک، کان اور دماغ کے ڈاکٹروں نے بھی اپنا منصوبہ ترتیب دے دیا تھا کہ اگر کسی چیز کو نقصان پہنچتا ہے تو انھوں نے کیا کرنا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں ‘ساری تیاری کر کے آپریشن شروع کر دیا تھا۔ یہ آپریشن کوئی ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھا۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘اس میں بڑا مسئلہ یہ تھا کہ چاقو کو باہر نکالنے کے لیے کوئی جگہ درکار تھی۔ جگہ کے بغیر چاقو باہر نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ چاقو کو کسی بھی جانب نہیں ہلا سکتے تھے کہ کسی بھی شریاں اور رگ کو نقصاں پہنچ سکتا تھا۔
‘ہم نے بہت سوچ سمجھ کر تھوڑی سی جگہ اس طرح بنائی کہ چاقو کو بہت ہی ہلکا دھکا دیا اور پھر ایک ہی لمحے کے اندر اس کو مخصوص زاویہ جس پر کسی اور چیز کو نقصاں نہ پہنچے، باہر نکال لیا۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ‘یہ مرحلہ بہت ہی بھاری تھا۔ ہم سانس بھی نہیں لے رہے تھے کہ نوک دار چیز کسی بھی چیز سے ٹچ ہوئی تو پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔ مگر پوری احتیاط اور سیکنڈوں کا حساب کتاب رکھ کر ہم نے چاقو باہر نکال لیا۔’
’مریض صحت مند ہو رہا ہے‘
ڈاکٹر محبوب داد کہتے ہیں کہ چاقو نکالنے کے بعد جب مریض کا مکمل معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئی بھی نقصان نہیں ہوا تھا اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
ڈاکٹر سارہ احمد کہتی ہیں کہ ’مریض اب وارڈ میں ہے۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ ہم صرف اس کے زخم بھرنے کا انتطار کر رہے ہیں جس کے بعد احتیاطاً اس کی آنکھوں کے چند ٹیسٹ کریں گے اور اس کو جانے کی اجازت دے دیں گے۔
’یہ ایک ایسا آپریشن تھا۔ جس میں ہمارا مقابلہ وقت اور آنکھ، ناک، حرام مغز اور گلے تک پھیلی ہوئی شریانوں سے تھا۔‘
دونوں زیر تربیت ڈاکٹروں کو انتہائی کامیاب اور حساس آپریشن کرنے پر جناح ہسپتال کراچی کی جانب سے خصوصی تعریفی سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا گیا ہے۔