مرد مجاهد۔۔۔ شاہ فیصل شہید
سعودی بادشاہ شاہ فیصل شہید کو ان کی اسلام سے محبت اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ہمدردی اور تڑپ کے باعث عالم اسلام کا بچہ بچہ جانتا ھے۔وه 1906 کو ریاض میں پیدا ہوئے۔وه سعودیہ کے تیسرے حکمران تھے اور 1975 میں شاہی محل کے اندر اپنے بهتیجے کے ہاتھوں شہید ہوئے۔آج کے اس کالم میں ھم آپ کو شاہ فیصل شہید کے جذبہ ایمانی کا ایک واقعہ سنائیں گے۔
شاہ ایران جو کہ انتہائی درجے کا دین بیزار اور لبرل انسان تھا، اس نے اپنا تختہ الٹے جانے سے پہلے ایک مرتبہ شاہ فیصل کو خط لکھا، جس میں اس نے کہا ’میرے بھائی، مہربانی فرما کر جدت لاؤ (ملک کو جدید بناؤ)۔ اپنے ملک کو کھولو۔ سکولوں میں مخلوط تعلیم لاؤ، عورتیں اور مرد (ساتھ ساتھ)۔ عورتوں کو منی سکرٹس پہننے دو۔ ڈسکو بناؤ۔ ماڈرن بنو، ورنہ میں اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ تم زیادہ دیر تک اپنے تخت پر براجمان رہو گے۔‘ اس کا جواب شاہ فیصل نے کچھ یوں دیا:
’جہاں پناہ، میں آپ کی نصیحت کی قدر کرتا ہوں۔ کیا میں آپ کو یاد دلاؤں کہ آپ فرانس کے شاہ نہیں ہیں۔ آپ ایلیسی میں نہیں ہیں، آپ ایران میں ہیں۔ آپ کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ مہربانی فرما کر یہ کبھی نہ بھولیں۔‘ تاریخ نے شاہ فیصل کو سچ ثابت کیا۔
جبکے مغرب پرست شاہ ایران کچھ ھی عرصہ بعد ذلت آمیز موت مرا اور ایران میں دفن ھونے کے لئے جگہ بھی نہ ملی۔
1973 کی عرب اسرائیلی جنگ میں دنیائے کفر کے حلاف شاہ فیصل کا کردار کھل کر سامنے آیا۔ جب امریکہ اور مغرب نے اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کا ساتھ دیا اور انھیں عربوں سے لڑنے کے لیے کھل کر اسلحہ اور مدد فراہم کی تو شاہ فیصل نے بطور احتجاج دنیا کو تیل بیچنے پر پابندی لگا دی۔ ان کے اس فیصلے کی وجہ سے دنیا میں تیل کی کھپت یکدم کم ہوئی اور اس کی قیمتیں ایک دم بڑھ گئیں۔
سنہ 73 کی تیل کی پابندی نے جو شاہ فیصل نے شروع کی تھی ایک دم سب کچھ بدل دیا۔ سنہ 1973 میں تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے مغرب میں بڑا کہرام مچا۔ وہاں یہ بات ہونے لگی کہ فیصل کس قسم کا آدمی ہے اور کیا کر سکتا ہے۔‘ 1973 کے عرب اسرائیل بحران کے دوران شاہ فیصل اور امریکی سیکرٹری خارجہ کسنجر کے درمیان بات چیت میں ایک جملہ بہت تاریحی اور قابل ذکر ھے ۔ شاہ فیصل نے سیکریٹری خارجہ کسنجر کو کہا تھا کہ ’ہمیں اتنا تنگ مت کرو۔
اگر تم ہمیں زیادہ تنگ کرو گے تو ہم اپنے تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دیں گے اور خیموں میں واپس چلے جائیں گے۔ آل سعود کے تمام حکمرانوں میں صرف شاہ فیصل میں ھی یہ جرات تھی کہ وہ یہ کہہ سکتے کہ ہم خیموں میں واپس چلے جائیں گے۔ اب شاید کوئی ایسا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔