مریکی زلت آمیز شکست کی وجوہات اور بے مقصد جنگ کا کل تحمینہ لاگت۔۔۔

قارئین آج کے اس کالم میں ھم آپ کو بتائیں گے کے امریکا بہادر نے افغانستان کی بے مقصد جنگ میں کتنے کھرب ڈالرز جھونک دئیے اور وه کون سے ایسے عوامل تھے جو امریکی زلت آمیز شکست کی وجوہات بنے۔ امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔ 2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے اور 2019 (ستمبر تک) کے لیے خرچ کا تخمینہ 38 ارب ڈالر تھا۔

اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالر خرچ کیے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جنگ کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن اس میں پاکستان میں آنے والے اخراجات شامل نہیں جسے امریکہ افغان سے متعلقہ کارروائیوں کے لیے اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ امریکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ھے کے وہ ہمیشہ دماغ کے بجائے بازو سے سوچتے ہیں اور جہاں چمٹے سے کام نکل سکتا ہو وہاں بھی ہتھوڑا دے مارتے ہیں۔

امریکیوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ بے پناہ طاقت ور ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر حالت میں اسے استعمال کیا جائے۔ بلکہ کچھ ایسا کیا جائے کہ استعمال کی نوبت آنے سے پہلے پہلے دشمن کو سمجھ میں آجائے کہ پنگا لینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد بش نے افغانستان کو اکیسویں صدی کا مہذب ملک بنانے کے مقدس مشن کو مکمل کرنے کے لیے ڈیزی کٹر بموں کے ذریعے پہاڑ ہلا دیے اور طالبان راتوں رات ہوا میں غائب ہوگئے۔ بش نے یہ قسم بھی کھائی تھی کہ اس دہشت گرد ٹولے کو دوبارہ کھڑے ہونے کا موقع کبھی نہیں ملے گا۔ اور ٹھیک بیس برس بعد وہی امریکا دو ٹریلین ڈالر اور ساڑھے تین ہزار سپاہیوں کی لاشیں اٹھانے کے بعد اس “دہشت گرد ٹولے” کے سامنے بیٹھ کر منتیں کر رہا تھا کہ بس ہمیں عزت سے نکل جانے دو۔ باقی تم جانو اور افغانستان جانے۔

امریکا نے چھ اور نو اگست انیس سو پینتالیس کو جاپان پر یکے بعد دیگرے یہ سوچ کر دو ایٹم بم دے مارے تھے کہ آج کے بعد پوری دنیا اس کے آگے با ادب باملاحظہ ہوشیار ہو جائے گی۔ مگر اس چھچور پن کا الٹا اثر ہوا۔ جس اسٹالن کو دراصل ٹرومین دبکاناچاہتا تھا وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا اور جاپان پر بم گرائی کے ٹھیک چار برس بعدانتیس اگست انیس سو انچاس کو پہلا ایٹمی تجربہ کر کے مغربی نظام کی برتری کو برابر کر دیا۔ چلیے امریکا اور سوویت یونین کی سرد جنگ اور مقابلے بازی تو سمجھ میں آتی ہے مگر عوامی جمہوریہ چین اور امریکا کا تو دور دور تک کوئی موازنہ نہ بنتا تھا۔

کیمونسٹ چائنا کو انقلاب کے بعد کے اگلے بیس برس بھی اپنی اقتصادی و سیاسی بقا اور بین الاقوامی شناخت کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ مگر امریکا نے اس ترقی پذیر چین سے بھی اس قدر چھیڑ خوانی کی اور اس کی عالمی تنہائی کا اتنا سفارتی استحصال کیا کہ چین جیسی کمزور طاقت بھی طیشیا گئی اور اکتوبر انیس سو چونسٹھ میں پہلا ایٹمی دھماکا کرکے بین الاقوامی دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ امریکا نے پہلی بار چین کو مسخرے پن کی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے سنجیدگی سے لینا شروع کیا اور پھر اتنی سنجیدگی سے لیا کہ دھماکے کے سات برس بعد ہی نو جولائی انیس سو اکہتر کو امریکی وزیر خارجہ ہنریکسنجر بن بلائے راولپنڈی سے بیجنگ جا پہنچا اور اگلے برس صدر رچرڈ نکسن عظیم عوامی ہال میں ماؤزے تنگ کے دائیں بازو بیٹھے ہوئے تھے۔

اس کے بعد کیا ہوا۔ آج کل امریکا پھر چین کو خطرہ تصور کر کے ” خود حسدی” میں مبتلا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے اپنی فوجی کمک کے ذریعے جنگ کا پانسہ جس طرح مغربی اتحادیوں کے حق میں پلٹا اور مارشل پلان کے ذریعے جس طرح تباہ حال اتحادی معیشتوں کو تیزی سے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی اور ایٹم بم پھینک کر جس طرح جاپان سے ہتھیار ڈلوائے۔ اس کے بعد ہر بین الاقوامی گلیارے میں امریکا نے کالر اونچے کر کے بطور “بھائی ” گھومنا شروع کر دیا۔ اسی نشے میں اس نے ویتنامیوں کے ہاتھوں فرانس کی ذلت آمیز نوآبادیاتی شکست کا بدلہ بنا کسی کے کہے اپنے گلے میں یہ سوچ کر ڈال لیا کہ یہ چار فٹ کا بھوکا ننگا ابلے چاول چٹنی کھانے والا امریکا کے آگے کتنے سیکنڈ ٹھہرے گا۔ مگر امریکا کے لیے ویتنام آ بیل مجھے مار ثابت ہوا۔ ننگے پیر ڈھائی پسلی والے ویتنامیوں نے سوویت اور چینی کلاشنکوفوں اور بانس کے تیر کمان سے وہ مار لگائی کہ امریکا کو اگلے دس برس تک سمجھ میں ہی نہ آیا کہ اس نے اپنے ساتھ کیا ہاتھ کر لیا ہے۔

اور پھر تیس اپریل انیس سو پچھتر کو دنیا نے نظارہ دیکھا کہ سائیگون کے امریکی سفارت خانے کی چھت پر سے جو آخری ہیلی کاپٹر اڑا اس کے آہنی پیڈوں سے بھی لوگ لٹکے ہوئے تھے۔ سارا غرور حاک ہو گیا ۔ ایک ہفتے پہلے تک جو بائیڈن کہہ رہے تھے کہ کابل میں طالبان فی الحال داخل ہونے کا رسک نہیں لیں گے اور چھ دن بعد امریکی سفارت خانہ کابل شہر سے ایرپورٹ منتقل ہو گیا۔ مگر شاباش ہے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کو جو آج بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکا کا افغان مشن کامیاب ہے۔ایک اور مثال سن لیں۔

کیوبا امریکا سے محض ستر میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا سوشلسٹ ملک ھے۔ باسٹھ برس سے امریکا اس کیوبا کو دبانا چاہ رہا ہے۔ مگر چھوٹا سا کیوبا آج بھی دیو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے۔ اس سے ثابت ھوا جس نے بھی امریکا پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا اسے دوبارہ آنکھیں کھولنانصیب نہیں ہوا۔ اور جس بھی قوم، ملک یا گروہ نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنج کیا امریکا آخر میں اس کے پاؤں ھی پڑا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں