میرے لیے تو کشمیر جنت کے بجائے جہنم بن گیا تھا، معذور نوجوان نے اس کشمیری لڑکی کی زندگی کو کیسے بدلا؟
جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں جس کا فیصلہ آسمان والا ان روحوں کو بناتے ہوئے ہی کر لیتا ہے اور درست وقت پر یہ افراد ایک دوسرے سے جتنے بھی دور ہوں اوپر والا ان کے ملنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیتا ہے-
ایسا ہی ایک جوڑا ایسا تھا جن کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بنائے ہی ایک دوسرے کے لیے گئے تھے- سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں کلثوم کا جو کہ کشمیر جنت نظیر کے ایک گھر میں پیدا ہوئيں مگر یہ جنت ان کے لیے اس وجہ سے جہنم بن گئی جب کہ ان کے والد ذہنی معذور تھے- تو اس وجہ سے ان کی ماں نے اس کو اس کے چچا کے گھر بھجوا دیا تاکہ اس کو کھانے پینے کو روٹی مل سکے اور اس کی جان اس کی بھابھی کے لگائے ہوئے جھوٹے الزامات سے چھٹ جائے اور چچا چچی کو ایک مفت کی ملازمہ ہاتھ آگئی تھی جس پر ظلم کا بازار چچا چچی نے گرم رکھا –
ان سب حالات کے ساتھ بدقسمتی سے کلثوم کو یہ بھی شکایت تھی کہ اس کے سگے چچا کی نظر اس پر اچھی نہ تھی- جس کی وجہ سے وہ اپنے سگے چچا کے گھر پر محفوظ نہ تھی جبکہ ماں بھائی اور بھابھی کے دباؤ کے سبب اس کو اپنے ساتھ رکھنے سے قاصر تھی- کئی سالوں تک چچا کے گھر میں بچپن گزارنے کے بعد جو جوانی آئی تو انہوں نے کچھ بڑا فیصلہ کر لیا-
دوسری طرف لاہور کے بس اسٹاپ پر محنت مزدوری کرنے والا ایک نوجوان محمد سرور تھا جس کی دونوں ٹانگوں کی معذوری تھی جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھا- مگر اس کے باوجود بس اسٹاپ پر ایک اسٹال لگا کر روزی روٹی کما لیتے تھے-
کلثوم ان مظالم سے تنگ آکر گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر بیٹھی اور اس نے کشمیر سے لاہور کی بس پکڑی اور چچا کے گھر سے بھاگ کر دارالعوام پناہ کی تلاش میں آگئيں۔ بس اسٹاپ پر محمد سرور نے جب کلثوم کو اس حال میں دیکھا کہ اسٹاپ پر موجود آوارہ لڑکے اس کو چھيڑ رہے تھے جب کہ وہ آنکھوں میں بےبسی کے آنسو لیے بیٹھی تھی-
محمد سرور نے جب کلثوم کو اس حالت میں دیکھا تو دونوں پیروں سے معذور ہونے کے باوجود اور کمزور ہونے کے باوجود کلثوم کی مدد کا فیصلہ کیا اور ان کو سمجھایا کہ دارالعوام ان کے لیے محفوظ نہیں ہو گی- عارضی طور پر کچھ دن کے لیے انہوں نے کلثوم کو اپنے ایک کزن کے گھر میں اس کی فیملی کے ساتھ پناہ میں دے دیا-
محمد سرور کا تعلق خود بھی انتہائی غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے والد نے ان کی والدہ کو بچپن میں ہی طلاق دے کر گھر سے نکال دیا تھا اس وقت ان کی عمر صرف پانچ چھ سال تھی۔ تو انہیں کلثوم کے دکھوں کا احساس بہت زیادہ ہوا۔
دو دن کے بعد جب انہوں نے کلثوم سے ملاقات کی تو اس سے شادی کی درخواست کی جس پر کچھ دن تک سوچ بچار کے بعد کلثوم نے قبول کر لیا۔ اس طرح سے کشمیر کی کلثوم کا جوڑا لاہور کے محمد سرور سے جڑ گیا-
محمد سرور کا یہ کہنا ہے کہ اگرچہ وہ بہت مال و دولت تو نہیں دے سکے مگر انہوں نے کلثوم کو محبت ضرور دی ہے- آج اس جوڑے کو اللہ نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے بھی نوازہ ہے جب کہ کلثوم کا یہ ماننا ہے کہ لوگ کشمیر کو جنت کہتے ہیں جب کہ ان کے لیے تو وہ جہنم ثابت ہوا اور ان کی جنت تو لاہور میں ان کے شوہر کا گھر ہے-
تاہم اس حوالے سے محمد سرور کا یہ کہنا تھا کہ سخت محنت کے باوجود ان کے معاشی معاملات بہتر نہیں ہیں اور اگر ان کو سر چھپانے کی جگہ مل جائے تو وہ زيادہ سکون سے اپنی زندگی گزار سکتے ہیں-
ان کی ویڈيو سوشل میڈيا پر وائرل ہو رہی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ مخیر حضرات تک ان کی آواز ضرور پہنچے گی اور ان کی مدد کا وسیلہ بن سکے گا-