میں مغل خاندان کی شہزادی ہوں۔۔ لال قلعہ کی حقدار ہونے کا دعویٰ کرنے والی خاتون شہزادی ہو کر غریبوں کی زندگی کیوں گزار رہی ہیں؟
ایک تنگ اور گھٹی ہوئی گلی میں اپنے پڑوسیوں کا باورچی خانہ استعمال کرنے والی یہ خاتون مغل خاندان کی بہو اور شہزادی ہیں۔ گھر میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ برتن بھی گلی میں ہی دھونے پر مجبور ہیں
قدیم ہندوستان کی تقسیم کے بعد ایسے کئی باوقار گھرانے تباہ ہو کر رہ گئے جو نسل در نسل دولت میں کھیلتے رہے۔ ان خاندانوں میں نواب اور دیگر امراء کے علاوہ پورے ہندوستان کے بادشہ بہادر شاہ ظفر کا خاندان بھی شامل تھا۔ سلطانہ بیگم خود کو بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے مرزا محمد بیدار بخت کی بیوی کی حیثیت سے مغل خاندان کی شہزادی کہتی ہیں۔
“لال قلعہ ہمارا ہے۔ ہم مغل خاندان کے وارث ہیں تو بھارتی حکومت ہماری جائیداد پر قبضہ کیوں کیا ہے؟ ہمیں ہمارا لال قلعہ واپس چاہئیے“
آج کے دور میں اتنے سے پیسوں میں کیا ہوتا ہے؟
سلطانہ بیگم کولکتہ میں رہتی ہیں اور ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ سلطانہ بیگم کے مطابق بیدار بخت کو حکومتِ نے 1960 میں بہادر شاہ ظفر کا وارث تسلیم کرلیا تھا اور اس کے بعد ان کی پنشن 6 ہزار مقرر ہوئی جو اب تک ملتی ہے لیکن 6 ہزار میں اب کیا ہوتا ہے؟
شوہر 32 سال بڑے تھے
سلطانہ بیگم نے بتایا کہ شادی کے وقت ان کی عمر 14 سال جبکہ ان کے شوہر کی عمر ان سے کہیں زیادہ تھی اور وہ اپنے شوہر سے 32 سال چھوٹی تھیں۔ بیدار بخت کا انتقال 1980 میں ہوگیا تھا البتہ ان کی زندگی میں بھی وہ غربت کی ہی زندگی جیتی رہی تھیں۔
عدالت نے کیس مسترد کردیا
سلطانہ بیگم نے لال قلعہ پر ملکیت کا کیس بھی کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کردیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اگر وہ قلعہ ان کی ملکیت ہے تو انھوں نے عدالت سے پہلے رجوع کیوں نہیں کیا؟ البتہ سلطانہ بیگم کہتی ہیں انھیں خدا پر بھروسہ ہے اور آج نہیں تو کل وہ اپنے اصلی گھر یعنی لال قلعے کو حاصل کرلیں گی۔