نرس کی شادی
ماسی طویل عرصے سے ہمارے گھر کام کر رہی تھی ۔ اب تو اس کی حیثیت گھر کے ایک فر د کی ہوچکی ہے وہ صبح آٹھ بجے آجاتی ہے ناشتہ بناتی ہے برتن دھوتی ہے۔ صفائی کرتی ہے۔ کپڑے استر ی کرتی ہے۔ اور دوپہر کا کھانا بنانے کے بعد واپس چلی جاتی ہے۔ ماسی کا شوہر سبز ی کی ریڑھی لگاتی ہے۔ سریا ان کی اکلوتی بیٹی ہے ۔ میٹرک کرنے کے بعد آگے نہ پڑھ سکی اور اب دو سال سے ہی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں نرس لگی ہوئی ہے۔ اور پندرہ ہزار تنخواہ لگی ہوئی ہے ۔ اور ساری تنہاء ماں کے ہاتھ رکھتی ہے تینوں کے پیسے ملا کر اتنے ہوجاتے ہیں کہ دو کمروں کا کرایہ بھی نکل آتاہے اور کچھ نہ کچھ گزارا ہوجاتاہے۔
جب ثریا نوکری نہیں لگی تھی ماسی کے حالات بہت برے تھے ۔ بیچاری دن رات پریشان رہتی تھی۔ کہ بیٹی کی شادی کیسے کرواؤں گی لیکن دو سال سے ماسی کے چہرے کو پرسکون دیکھ رہا ہوں۔اب ان کے گھر بلب بھی لگ گئے ہیں۔ ماسی بڑے شوق سے ناصرف ساس بہو والے ڈرامے دیکھتی ہے۔ بلکہ میری بیگم سے روزانہ ڈراموں کی کہانیاں بھی ڈسکس کرتی ہے۔ ثریا کی عمر بائیس سال ہوچکی ہے ہر ماں کی طرح ماسی کی بھی خواہش ہے کہ اس کی بیٹی کے لیے کسی اچھے لڑکے کا رشتہ آئے ۔ رشتے تو آتے تھے لیکن ماسی کے دل کونہیں بھاتا۔ ماسی اور اس کا شوہر کوئی نہ کوئی اعتراض کردیتے ۔ پچھلی مرتبہ ایک اچھا لڑکا مل گیا۔ میں ماسی اور شوہر کو سمجھایا کہ نہایت موزوں رشتہ ہے لڑکا کماتا بھی ہے اور آپ کی بیٹی جتنا پڑھالکھا بھی ہے۔ بہت بنے گی جب دونوں آپس میں بیٹھے گے ۔ میری بات سن کر ایک نظر اپنے شوہر کی طر ف دیکھا دونوں کی آنکھوں میں ایک الجھن تھا ۔ ماسی کا شوہر بے بسی سے بولا۔
لڑکے کو کم از کم بارہ جماعتیں تو پاس ہونا چاہیے اور اس لڑکے کا رنگ تو پکا ہے۔ میں اپنی پیاری ثریا کو اتنے کالے لڑکے سے کیسے بیاہ دوں۔ میں سمجھ گیا ایک بار پھر انکار ہے ۔ ثریا کےلیے بہت سے رشتے آئے ۔ لیکن ماسی او ر اس کی پسند پر کوئی نہ اترا ۔ ایک دن میری بیگم نے ایک نئی بات بتائی۔ کہ ثریا کے بقول ایک لڑکے نے اس سے شادی کی خواہش کی ہے۔ اور اس کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے۔ اور ایف اے پاس ہے۔ میں خوشی سے اچھل پڑا گویا ماسی کےپسند کارشتہ مل چکا تھا۔ تین دن لڑکا اور اس کے والدین ثریا کے گھر موجود تھے۔ لڑکے والوں کو ثریا بہت پسند آئی اور وہ بضد تھے کہ کوئی چھوٹی موٹی رسم ادا کر دی جائے لیکن ماسی اور اس کے شوہر کے چہرے سے عجیب سی پریشانی عیاں تھی۔ انہوں نے سوچنے کےلیے کچھ وقت مانگا۔ اور لڑکوں والوں کو رخصت کر دیا۔ مجھے غصہ آیا اور خود پر کنٹرول کرتے ہوئے پوچھا اب کیا مسئلہ ہے ماسی بولی صاحب جی باقی سب ٹھیک ہے لیکن لڑکا کرائے کے مکان میں رہتاہے۔ میری ثریا کیسے سکھی رکھے گا۔ میں دانت پیستے ہوئے ۔ جیسے آپ کا شوہر آپ کو سکھی رکھتا ہے یہ سنتے ہی ماسی کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ صاحب جی میں نہیں چاہتی کہ جیسے میں نے مشکل زندگی گزاری ویسے میری بیٹی گزارے ۔
کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا۔ کہ ماسی اور اس کا شوہر کیاچاہتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک ایسا رشتہ بھی آگیا جس میں لڑکے کا اپناگھر تھا لیکن ماسی نے اعتراض کر دیا کہ لڑکے کی عمرکچھ زیادہ لگتی ہے۔ ایک اور لڑکے کے بارے میں ماسی کی شکایت کی گئی کہ اس کو عینک کیوں لگی ہوئی ہے۔ ثریا کی عمر گزرتی جارہی تھی ۔ لیکن ماسی ایک آئیڈیل داماد کی تلاش میں تھی ۔ایک دن مجھے شک سا گزرا ۔ میں نے بیگم سے ڈسکس کیا اور میں نے ایک چھوٹا سا ڈرامہ کرنے کی ٹھانی ایک دن ماسی کو سامنے بٹھایا اور اپنے ایک دوست کی تصویر دکھا کر کہا ماسی یہ لڑکا کیسا ہے ایم اے پاس ہے۔ ماں باپ فو ت ہوچکے ہیں۔ ایک کنال کے گھر میں رہتا ہے۔ دو لاکھ روپے تنخواہ لیتاہے۔ اور گاڑی بھی رکھی ہوئی ہے۔ ماسی کے چہرے پر بے چینی کے آثار نمایاں تھے۔ ہاتھوں کو مسلتے ہوئی بولی ۔ صاحب جی اتنی امیر جگہ پر بیٹی کو بیاؤ گی تو جہیز کہاں سے لاؤں گی۔ میں نے جلدی سے کہا کہ جہیز کی فکر نہ کریں۔ لڑکے نےکوئی چیز لینے سے انکا ر کر دیا ہے۔
ماسی پیشانی پر آئے پسینے کے قطروں کو اپنی میلی چادر سے صاف کیا اور کہنے لگی ٹھیک ہے میں کل ثریا کے ابا سے پوچھ کر بتاؤں گی۔ اگلی صبح جواب توقع کے عین مطابق آیا۔ یہ جواز پیش کیا گیا ہے ۔ اس کو اور بڑی بڑی اچھی لڑکیاں مل سکتی ہیں۔ پھر یہ ہماری ثریا سے شادی پر رضامندکیوں ہے۔ ضرور کوئی عیب ہوگا۔ بیگم بھی الجھن کا شکار ہوگئی ۔ کوئی سمجھ نہیں آتا ۔ کہ ماسی اور اس کا شوہر کس قسم کا داماد چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے ہماری یہ پریشانی مزید بڑھتی ایک دن ثریا ساری کہانی کھول دی۔ اور کا پہلاجملہ ہی ایٹم بم تھا سر جھکا کر بولی میر ی شادی ہوچکی ہے۔ میں حیرت سے اچھل پڑا یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ کب ہوئی اور کہاں ہوئی؟ اسکے آنکھوں میں کچھ ستارے سے جھلملائے ۔ اور کچھ دیر خاموش رہی ۔ اور گھبرائی ہوئی آواز میں بولی میری جیسی اکثر غریب ملازمت پیشہ لڑکیوں کی یہی پرابلم ہے۔ مگر اس سے کئی پندرہ ہزار ہونے بھی بند ہوجائیں گے۔ میرے ماں باپ یہ بات زبان پر لانا نہیں چاہتے ۔ میں یہ جانتی ہوں کہ وہ میری شا دی میری نوکر ی سے کر چکی ہیں۔ یہ کہانی ایسی ماں باپ کےلیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔