ننھی چڑیا
وہ کافی دیر سے پرواز کر رہی تھی اور کسی تلاش میں تھی۔مسلسل پرواز کرنے سے اس کے پَر بُری طرح تھک چکے تھے،بھوک بھی ستانے لگی تھی۔اب وہ کوئی محفوظ ٹھکانہ تلاش کر رہی تھی۔کافی دیر کے بعد اسے ایک گھر نظر آیا،جہاں صحن میں ایک چھوٹی بچی ادھر ادھر پھدکتے
چھوٹے چھوٹے چوزوں کو دانہ ڈالنے میں مصروف تھی،یہ دیکھ کر ننھی چڑیا فوراً صحن میں اتر گئی اور زمین پر بکھرے دانے چگنے لگی۔ مرغی نے جب اپنے بچوں کے درمیان کوئی نئی مخلوق دیکھی تو وہ ننھی چڑیا کے قریب آگئی،چڑیا اس کی آنکھوں میں چھپے غصے کو بھانپ گئی۔اسی لمحے وہاں ایک بلی نمودار ہوئی،مرغی اور بلی دونوں چڑیا کو ایسے دیکھ رہے تھے،جیسے کوئی فتح حاصل کر لی ہو،ننھی چڑیا دونوں کے ارادوں کو بھانپ چکی تھی۔ چڑیا ابھی ان دونوں کے جارحانہ ارادوں کے خوف میں مبتلا تھی کہ اچانک وہاں ایک اور شکاری آدھمکا۔ وہ کتا چڑیا کو دیکھ کر اس انداز میں بھونکنے لگا،جیسے مرغی اور بلی کو بتا رہا ہو کہ یہ نیا مہمان صرف میرا ہے۔چڑیا اس نئے شکاری کی آمد پر بری طرح بوکھلا گئی۔ کتا اب چڑیا کے بہت قریب آچکا تھا۔چڑیا کو فوراً کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنی تھی،وقت بہت کم رہ گیا تھا،وہ خونخوار آنکھوں والا کتا،چڑیا پر جھپٹنے ہی والا تھا کہ چڑیا پھرتی سے پھدک کر صحن میں موجود کھڑکی پر آبیٹھی ،یہ ٹوٹی ہوئی کھڑکی اس ننھی جان کو تحفظ فراہم کرنے میں
کامیاب رہی ،چڑیا دبک کر کھڑکی کے ایک کونے میں بیٹھ گئی،اُس کا چہرہ خوف کی شدت سے زرد ہو گیا تھا،اس نے سوچا اگر یہ کھڑکی اسے نظر نہ آتی تو شاید اب تک وہ خونخوار آنکھوں والے کتے کے معدے میں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ خوف بھی بڑھتا جا رہا تھا،چڑیا دل سے اللہ سے دعا مانگ رہی تھی کہ اسے اس مصیبت سے چھڑکا تامل جائے۔ بھوکی چڑیا اپنی بد قسمتی کے بارے میں سوچنے لگی۔کاش!وہ چڑیا نہ ہوتی،بلکہ انسان ہوتی ،کوئی اسے اپنا نوالہ نہ بناتا۔ اسے ہر وقت اپنی جان بچانے کے لئے دوسرے خونخوار جانوروں سے اپنی حفاظت نہ کرنی پڑتی۔آرام سے چین کی زندگی بسر کرتی،کوئی کتا یا بلی اسے کھانے نہ آتا اور نہ وہ آج اس طرح خوف میں رات کا ٹ رہی ہوتی۔ وہ رات واقعی بہت دہشت ناک تھی۔ بھوکی پیاسی چڑیا اب تک دبکی بیٹھی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی،اس نے اپنا سر باہر نکال کر نیچے کا جائزہ لیا،وہ خونخوار آنکھوں والا کتا ابھی تک اپنے شکار کی تاک میں بیٹھا تھا۔ پوری رات چڑیا بھوکی پیاسی خوف میں مبتلا،اپنی قسمت کو کوستی رہی،پوری رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی،اگلی صبح بھوکی چڑیا نے ایک نظر نیچے
ڈالی،وہاں اب کوئی شکاری نہ تھا،اچانک وہ چھوٹی بچی کھڑکی کے قریب آئی،اس نے چڑیا کو دیکھا،اسے وہ چڑیا قریباً ادھ مری ایک کونے میں پڑی بے جان سی نظر آئی۔ بچی نے اپنے ہاتھ کی انگلی سے چڑیا کو چھوا تو اسے احساس ہوا کہ چڑیا زندہ ہے۔اب چڑیا کا دل خوف سے ڈوب رہا تھا کہ نہ جانے وہ بچی اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والی تھی۔اچانک اس بچی کی آواز آئی۔ ”اوہو․․․لگتا ہے اس ننھی چڑیا کے پَر نہیں ہیں۔ “ اس پورے جملے کا صرف ایک لفظ چڑیا کے ذہن میں جیسے اٹک کر رہ گیا،چڑیا نے لمبی سانس لی،جلدی سے اپنے”پَر“پھڑپھڑائے اور تھوڑی ہی دیر میں وہ نیلے آسمان میں گم ہو گئی۔وہ نادان چڑیا اب تک بھولی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے”پَر“کی نعمت سے نوازا ہے،جو انسان کے پاس نہیں۔ہر جاندار کو اللہ تعالیٰ نے مکمل پیدا کیا ہے۔ بس تھوڑے غور و فکر سے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو خود تلاش کرنا اس جاندار کا کام ہے۔