نکسل باڑی یا ماؤ نواز باغی کون ھیں؟؟؟

قارئین آج کے اس کالم میں ہم آپ کو پچھلی کئی دہائیوں سے انڈین سرکار اور سیکورٹی فورسز کو تگنی کا ناچ نچانے والی تحریک “نکسل باڑی یا ماؤ نواز” کے متعلق بتائیں گے۔ ان باغیوں کی طاقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کے رواں برس اپریل میں انڈیا کی مشرقی ریاست چھتیس گڑھ (سابقہ انڈین کپتان مہندرا سنگھ دھونی کی آبائی ریاست) کے علاقے بیجا پور میں ماؤ نواز باغیوں نے اپنے خلاف ہونے والے ایک آپریشن میں 22 انڈین فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا

اور یہ ماؤ نواز باغیوں کے چند بڑ ے اور منظم خملوں میں سے ایک تصور کیا جا رہا ھے۔ اتنی زیادہ تعداد میں فوجیوں کی ہلاکت کو انڈین آرمی کی ناکامی، کم تربیت یافتہ، سٹریٹیجک غلطی اور انٹلیجنس سسٹم کی ناکامی قرار دیا گیا تھا۔ پورا ملک اور انڈین میڈیا یہ سوال پوچھ رها ھے کے کن وجوہات کی بناء پر جدید ترین اسلحوں سے لیس دو ہزار سے زیادہ جوان چند سو ماؤ نوازوں کا مقابلہ نہیں کر سکے؟

یاد رہے ماؤنواز باغی اس سے پہلے ماضی میں بھی ریاست چھتیس گڑھ میں انڈین فورسز پر متعدد بڑے اور تباہ کن حملے کر چکے ہیں۔ اس حملے میں جدید اسلحہ، نظریہ اور وسائل سے مالا مال ماؤ نواز باغیوں کی “پیپلز لبریشن گوریلا آرمی” کی بیٹالیئن نمبر 1 کے کمانڈر ہرما نے خود ہی ترریم کے آس پاس کے جنگل میں باغیوں کی موجودگی کی خبر پھیلائی اور یوں وه انڈین آرمی جو ہندی فلموں کی حد تک اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی وه دو ہزار سے زیادہ جوانوں کے ساتھ اس مقام کے گرد گھیرا دینے کے لیے نکل پڑی اور یوں نہایت آسانی سے ماؤنواز باغیوں کے اس جال میں پھنس چکی تھی۔

اب ہم کچھ بات اس تحریک کے ماضی اور مقاصد پے کر لیتے ہیں۔ ماؤ نواز یا نکسلی تحریک اس برس مئی میں 55 برس پورے کر چکی ہے۔ یہ تحریک سنہ 1967 میں شمالی بنگال کے ایک چھوٹے سے گاؤں نکسل باڑی میں کسانوں کی ایک بغاوت سے شروع ہوئی تھی جو اس زمین کا مالکانہ حق مانگ رہے تھے جس میں وہ کاشت کر رہے تھے۔ اس نکسلی تحریک کو کچلنے کیے لیے بھارت سرکار کی بنیادی حکمت عملی اب تک یہی رہی ہے کہ اسے طاقت سے کچل دیا جائے لیکن ابھی تک یہ پر تشدد تحریک ختم نہیں ہو سکی۔

اس تحریک سے رفتہ رفتہ بنگال، اڑیسہ، بہار اور اتر پردیش کے ہزاروں تعلیم یافتہ شہری نوجوان منسلک ہوتے گئے۔ ان سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ ملک میں دبے کچلے لوگوں کو برابری کا حق دلانا اور ملک میں ایک بہتر نظام قائم کرنا۔ اس تحریک کا محور چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بانی ماؤزے تنگ تھے۔ ان رومانوی نوجوانوں کو لگا کہ انڈیا میں غربت و ناانصافی کا خاتمہ پارلیمانی جمہوریت سے نہیں بلکہ ایک پرتشدد انقلاب سے ہی ممکن ہے۔

بڑی تعداد میں نوجوانوں نے ملک اور غریب عوام کے ایک بہتر مستقبل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ یہ تحریک بنگال سے نکل کر، بہار، اڑیسہ ، آندھرا، مدھیہ پردیش، کیرالہ، مہاراشٹر اور اتر پردیش کی ریاستوں تک پھیل گئی۔ نکسلی تحریک ھی کی بدولت انڈین حکومت بنگال اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں موثر زمینی اصلاحات پر مجبور ہوئی ۔ ماؤ نوازوں نے اتر پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں دلتوں اور قبائل پر ہونے والے اعلیٰ ذات کے مظالم اور تفریق کے خلاف بھی جد و جہد کی۔

مگر بدلتے ہوئے حالات میں انتخابی سیاست میں یقین رکھنے والے نہ صرف اصل دھارے کی کمیونسٹ پارٹیوں کی مقبولیت گھٹنے لگی ھے بلکہ نکسلی تحریک جیسی ماؤ نوز تنظموں اور ان کا تشدد کا نظریہ بھی بے معنی ہوتا جا رہا ھے۔ حکومت ہند نے نکسلیوں سے لڑنے کے لیے سپیشل فورس “کوبرا فورس” کے نام سے تیار کی ہوئی ھے۔

ماؤ نواز تحریک آج بنیادی طور پر صرف چھتیس گڑ ھ تک محدود ہے۔ یہاں کا خاصا علاقہ جنگلوں پر محیط ہے اور ان جنگلوں میں صدیوں سے قبائلی آباد ہیں۔ یہ خطہ معدنیات سے مالا مال ہے۔ حکومت ان میں سے بہت سے علاقوں میں کان کنی کرنا چاہتی ہے اور وہاں بڑی بڑی فیکٹریاں لگانے اور نئے شہر بسانے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے۔

جس کے لیے ان زمینوں سے آباد قبائلیوں کو بے دخل کرنا پڑے گا۔ چھتیس گڑھ میں لڑائی زمین اور قبائلیوں کے حق کی ہے۔ نکسلی تحریک میں گذشتہ 55 برس میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ حکومت اس تحریک کو طاقت کے زور پر کچلنے کی کوشش کرتی رہی ہے جبکہ نکسلی سکولوں، سڑکوں، سرکاری دفتروں کو بم سے اڑا کر اور دور دراز کے علاقوں میں تعینات پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کر کے اس کا جواب دیتے رهتے ہیں۔ تشدد، جوابی تشدد کا سبب بنتا ہے۔ یہ دونوں ہی فریق آج تک نہیں سمجھ سکے۔

موجودہ دور میں ماؤ نوازوں کی پرتشدد تحریک اور خونریزی بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تحریک غریب قبائلیوں کے حقوق اور انصاف کے مقاصد کو تشدد سے نہیں حاصل کر سکتی۔ یہ اب انھیں نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس بے معنی خونریزی سے اس تحریک سے وابستہ سبھی پرانے اور تجربہ کار رہنما بدظن اور منحرف ہو چکے ہیں۔ نکسلیوں اور ماؤ نوازوں کو اب تشدد کا راستہ ترک کرنا ہو گا۔ انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے نظام کو بدلنے کے لیے تشدد کے بجائے جمہوری راستے پر چلنا ہو گا ورنہ آگ اور بارود کا یہ خونی کھیل مزید کئی دہائیوں تک انسانی زندگیاں نگلتا رھے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں