وہ ہمارا اکلوتا بیٹا ہے اور میں فوراً وہاں پہنچنا چاہتی ہوں… آسٹریلیا میں پاکستانی طالبعلم کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟
’میں ماں ہوں۔ جب سے یہ واقعہ ہوا ہے ایک منٹ بھی سکون سے نہیں گزرا، بس ہر وقت حسن کی ہی باتیں کرتی رہتی ہوں۔ اس کے والد بھی انتہائی پریشان ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بس جلد از جلد اپنے بیٹے کے پاس پہنچ جائیں۔‘
’وہ ہمارا اکلوتا بیٹا ہے جسے ہم نے تعلیم حاصل کرنے اور اچھے مستقبل کے لیے آسٹریلیا بھیجا تھا۔ اس کے دوستوں نے بتایا ہے کہ اب وہ بہتر ہے اور اس کی جان بچ گئی ہے، ہم اس پر اللہ کا بہت شکر ادا کر رہے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے حسن احمد کی والدہ فوزیہ احمد کا۔ پاکستانی طالبعلم حسن کو 12 مارچ کو آسڑیلیا کے شہر میلبرن میں گاڑی چھینے کی واردات کے دوران مبینہ طور پر تیز دھار آلے کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا گیا تھا۔
حسن احمد جائے وقوعہ سے انتہائی زخمی حالت میں ایک کلومیٹر تک پیدل چلتے ہوئے قریبی پیڑول سٹیشن تک پہنچے، جہاں موجود افراد نے ایمبولینس منگوائی اور انھیں ہسپتال پہنچایا۔
آسڑیلیا میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے مطابق حسن کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور انھیں ہر قسم کی طبی امداد مہیا کی جا رہی ہے۔
پاکستان سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن آف آسڑیلیا کے مطابق حسن احمد جب ہسپتال پہنچے تو وہ شدید مضروب تھے۔ تنظیم کے عہدیدار علی اعوان کے مطابق یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی پاکستانی طالب علموں کے ساتھ اس نوعیت کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
علی اعوان کے مطابق ’حسن کو اگر تھوڑی دیر اور طبی امداد نہ ملتی تو خدانخواستہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔‘
حسن احمد کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟
علی اعوان کے مطابق حسن دن کے اوقات میں اپنی تعلیم حاصل کرتے اور اخراجات پورے کرنے کے لیے رات کے اوقات میں ٹیکسی سروس ‘اوبر’ چلاتے تھے۔ ان کے ساتھ یہ واقعہ بارہ مارچ کی رات کو پیش آیا۔
’دونوں نے حسن احمد سے کہا کہ ہم تمھاری گاڑی چوری لے کر جا رہے ہیں۔ جس پر حسن احمد نے کوئی بھی مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ موبائل وغیرہ بھی گاڑی میں موجود ہیں۔ گاڑی چونکہ آٹومیٹک تھی لہذا تھوڑی دیر چلنے کے بعد رُک گئی کیونکہ گاڑی کا ریموٹ حسن احمد کی جیب میں تھا۔‘
’جب گاڑی رکی تو وہ دونوں پیدل چلتے ہوئے حسن احمد کی طرف بھاگے اور دونوں میں سے ایک نے حسن احمد کی کمر پر تیز دھار آلے سے وار کیے۔‘
علی اعوان کے مطابق ’حسن احمد انتہائی زخمی حالت میں ایک کلومیٹر پیدل چل کر قریب ترین پیڑول پمپ پر پہنچے۔ جہاں پر موجود لوگوں نے ایمبولینس کو کال کی جس کے بعد انھیں ہسپتال پہنچایا گیا۔ اس دوران حسن احمد کا بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی حالت انتہائی نازک ہو چکی تھی۔ انھیں چند منٹ مزید طبی امداد نہ ملتی تو پتا نہیں کیا ہو جاتا۔‘
حسن کی والدہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم جلد از جلد اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے آسڑیلیا جانا چاہتے ہیں۔ میں نے ارجنٹ پاسپورٹ کے لیے اپلائی کر دیا ہے اور آئندہ چند گھنٹوں میں مجھے پاسپورٹ مل جائے گا، جس کے بعد ویزہ کے لیے اپلائی کروں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ اڑ کر اپنے بیٹے کے پاس پہنچ جاؤں۔‘
آسٹریلیا میں موجود پاکستانی طلبا کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ ماضی قریب میں بھی اس نوعیت کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
ایک پاکستانی طالبعلم جواد خان کا کہنا تھا کہ ’میرے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں نے راستے میں مجھ سے بڑے اچھے انداز میں گپ شپ لگائی۔ مجھ سے پوچھا کہ میں کون سے ملک اور کہاں سے ہوں، جب بتایا کہ پاکستان سے ہوں تو بظاہر وہ بہت خوش ہوئے۔ ایک سنسان مقام پر انھوں نے خنجر میرے گردن سے لگایا اور گاڑی کی چابی اور پرس وغیرہ مانگا۔‘
’میں نے خاموشی سے سب کچھ ان کے حوالے کیا تو جاتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ تم لوگ اسی سلوک کے مستحق ہو۔‘
’پاکستانی طالبعلم عدم تحفظ کا شکار ہیں‘
علی اعوان کہتے ہیں کہ آسڑیلیا میں پاکستانی طالب علموں کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے۔ ان طالبعلموں کی اکثریت تعلیم کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہے اور زیادہ تر طالب علم شام اور رات کے اوقات میں اوبر اور ٹیکسی چلاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب سے کورونا کی صورتحال پیدا ہوئی اور لاک ڈاون ہوا اس وقت سے پاکستانی طالب علموں کے خلاف جرائم بڑھ چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’ہمارے طالب علم آسڑیلیا کے معاشرے میں اہم خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ قانون پسند ہیں مگر اس وقت عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعہ کے ملزماں کو پکڑا جائے، انھیں قرار واقعی سزا دی جائے اور آسڑیلیا میں مقیم پاکستانیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘