ٹکڑا کیا پورا جگر بھی نکال لیں تو مجھے خوشی ہوگی۔۔ صرف بیوی نہیں بلکہ بیٹیاں بھی اپنے باپ کو جگر عطیہ کرتی ہیں
کہتے ہیں ماں باپ اپنی اولاد کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں لیکن اس معاملے میں اولادیں بھی اکثر ایسی مثالیں قائم کرجاتی ہیں کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک بیٹی 21 سالہ کوثر ہیں جنھوں نے اپنے ایڈز کے مریض والد گاور خان کو اپنا جگر کا ٹکڑا عطیہ کردیا۔
گاور خان اور ان کی بیٹی کوثر لاڑکانہ کے رہنے والے ہیں۔ گاور کہتے ہیں کہ جگر کا کینسر ہونے کے علاوہ انھیں ناقص خون لگوانے کی وجہ سے ایڈز کا موذی مرض بھی تھا جس کی وجہ سے کوئی بھی اسپتال ان کو تسلی بخش جواب نہیں دے رہا تھا۔ گاور کہتے ہیں اسپتال والے والے کہتے تھے کہ ایڈز کی وجہ سے ان کے جگر کی پیوند کاری ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں ان سے پوچھتا کہ کیا مجھے اس طرح مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا تو وہ کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔‘
اسی دوران گاور کو کسی نے گمبٹ اسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ گاور کہتے ہیں کہ وہ وہاں چلے تو گئے لیکن انھیں کوئی امید نہیں تھی کہ وہاں ان کا علاج ہوسکے گا۔ ’میں وہاں گیا تو میں نے وہاں بھی ڈاکٹروں سے لڑنا شروع کر دیا کہ آپ لوگ بھی میرا کچھ نہیں کرو گے، بس رٹے رٹائے جملے بولو گے۔‘
لیکن گمبٹ اسپتال کے ڈاکٹرز نے ان کی باتوں پر انھیں کچھ نہیں کہا اور ٹرانسپلانٹ کی تیاری شروع کردی جس پر کوثر نے اس ڈر سے اپنے جگر کا ٹکڑا اپنے والد کو دے دیا کہ کہیں ان کے علاج میں دیر نہ ہوجائے۔
گاور خان کا ٹرانسپلانٹ کامیاب ہوا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایڈز کے مریض میں جگر کی کامیاب پیوندکاری کا پہلا آپریشن ہے۔
جگر اور گردے کی مفت پیوندکاری
بی بی سی کے مطابق گمبٹ ہسپتال میں اب تک تقریباً 550 ٹرانسپلانٹ کیے جا چکے ہیں اور ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اب میں سے نوے فی ڈے ٹرانسپلانٹس کامیاب ہیں۔ گمبٹ اسپتال سندھ کے شہر گمبٹ میں موجود ہے جہاں جگر اور گردے کے ٹرانسپلانٹ کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہے۔