پراسرار سوال اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حیرت ناک جواب


حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فراست اور علم کی وسعت سے کون واقف نہیں ہے؟ رسول اکرمﷺ نے آپ کو “باب ا لعلم “کہا ہے۔ یعن آقاﷺ کی حدیث کامفہوم ہے میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ فی الواقع صدیوں سے انسانیت نے اس دروازے عقل ودانش کی بھیک مانگی ہے۔ ابھی کئی زمانے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ کہ کب موقع ملے ؟ اور علم کی اس چوکھٹ اپنا سلام نیاز پیش کرسکیں۔

اما م علی رضی اللہ عنہ کی مبارک زندگی سے ایسے کئی واقعات منسو ب کیے گئے ۔ ایسے کئی واقعات روایت کیے جاتےہیں۔ ایسے کئی فرامودات بیان کیے جاتےہیں نہ صرف ماضی کی پچھلی کئی صدیوں کے انسانو ں کےلیے مشعل راہ ثابت ہوئے بلکہ وہ آنے والے زمانوں میں بھی وہ انسانیت کو نئی راہیں سلجھاتے رہیں گے۔

اور عقل ودانش کی نئی گتھیاں سلجھاتے رہیں گے۔ داما د رسول امام علی ؑ کی فہم وفراست کا ،عقل ودانش کا یہ عالم تھا کہ آپ منبر پر بیٹھ جاتے۔ اور ” سلونی ” کی صدائیں دیتے کہ مجھ سے پوچھو ۔ جو مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو۔ میں اس چیز کو تمہیں جواب دوں گا۔ ایسے ہی ایک محفل برپا تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ علم وحکمت کےموتی بکھیر رہے تھے کہ ایک شخص وہاں پر حاضر ہوا۔

اور دست ادب کو جوڑ کر گویا ہو ا کہ اے علی ! ایک سوال میرے قلب وذہن کو پریشان کیے رکھے ہے ۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم تمام لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔ تو پھر مرنے کے بعد ہمارے جسموں کے ساتھ ایسا انجام کیوں ہوتا ہے ؟ کہ اس میں کیڑے پڑجاتےہیں۔ ہم جن چہروں سے پوری زندگی محبت رکھتےہیں۔ اور ان محبوب چہروں کو مرنے کےبعد کیڑے کیوں کھاجاتےہیں؟

اس لیے دکھ نےمجھے مخدوم کیے رکھا ہے اس بظاہر سادہ سوال کا حضرت علی رضی اللہ عنہ نےکس خوبصورتی سے کیا جواب دیا؟ تواس دربار میں موجود تمام اصحاب ہمہ تن گوش ہوگئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس بظاہر سادہ سوال کا کیا جواب دیتےہیں؟ امام علی مسکرائے اورفرمایاکہ : اے شخص ! شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ نےموت کے بعد انسان کے جسم میں کیڑے پید ا کردیے۔

آپ کا یہ حیر ت میں مبتلا کردینے والا جواب سنا۔ تو وہ شخص حیران ہو کر بولا اے علی ! اس میں شکر کامقام کیا ہے۔ کہ ہمارے جسمو ں میں مرنے کے بعد کیڑے پڑجاتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : کہ اے شخص ! اگر مرنے کےبعد انسان کےجسم میں کیڑے نہ پڑتے یہ ہوتا کہ لوگ اپنے عزیز واقارب ، اپنے محبوبوں کو مرنے کے بعد دفناتے مت بلکہ ان کی لاشوں کو اپنے گھروں میں سجا لیتے۔

اور یوں با لآخر فتنےمیں پڑجاتے۔ اورجیسےجیسے وقت گزرتا جاتا ۔ ان لاشوں کی بے حرمتی ہوتی رہتی ۔ اورآنے والے وقتوں میں ، آنے والی نسلیں ضرورت پڑنے پر ان لاشوں کی جسمانی اعضاء کو بیچ کھانےسے بھی گریز نہ کرتے ۔

ہمارے خالق اور ہمارے اللہ کی غیر ت یہ گوارہ نہیں کرتی کہ مرنے کے بعد اس کی تخلیق کی لاش کی یوں بے حرمتی ہوں۔ چنانچہ مرنے کے بعد ہمارےجسموں میں کیڑے پڑجاتےہیں۔ اور ہمیں زمین میں دفنا دیا جاتا ہے۔ اور یوں ہم رفتہ رفتہ اپنی اصل سے گھل مل جاتے ہیں۔ اور ہمارا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا

اپنا تبصرہ بھیجیں