کرنٹ لگنے سے گھر کا واحد کمانے والا نوجوان بے بسی کی علامت بن کر رہ گیا ۔۔ معصوم بیٹی 2 سال سے بستر پر پڑے باپ کے پاس بیٹھی دعائیں مانگتی رہتی ہے
6 سالہ معصوم بچی اپنے باپ کی آواز سننے کے لیے ترس گئی۔ بچی کے والد کرنٹ لگنے کی وجہ سے بستر پر آگئے۔ وہ نہ بات کرسکتے ہیں اور نہ بستر سے اٹھ سکتے ہیں۔ بچی ہر وقت اپنے پاپا کو یونہی دیکھتی رہتی ہے اور والدہ سے سوال کرتی ہے کہ ماما میرے بابا کب ٹھیک ہوں گے۔بیٹیاں اپنے والد سے بہت زیادہ محبت کرتی ہیں۔ باپ کی محبت کسی بھی بیٹی کے لیے دنیا میں سب سے بڑھ کر ہے۔ ایک لڑکی کسی مرد پر اتنا بھروسہ نہیں کرسکتی جتنا کہ وہ اپنے باپ پر کرتی ہے۔ باپ بیٹی کا رشتہ ہی قدرت نے اتنا خوبصورت اور مضبوط بنایا ہے کہ دونوں کا تعلق شروع دن سے جڑتا ہے۔
اس بچی کے والدین نے پسند کی شادی کی تھی۔ دونوں کے درمیان محبت بھی حد سے زیادہ تھی۔ ہر وقت دونوں ساتھ ہوتے تھے۔ ان کی شادی کو 7 سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ بچی کے والد پہلے ہسپتالوں میں مرد نرس تھے لیکن پھر انہوں نے وہ نوکری چھوڑ دی تھی اور دوسرا کام کرتے تھے۔ مگر لاک ڈاؤن آیا تو ان کا کام بھی رُک گیا اور یہ بیروزگار ہوگئے۔نجی ویب سائٹ ڈیجیٹل پاکستان کو انٹرویو دیتے ہوئے بچی کی والدہ بتاتی ہیں کہ:” ایک دن میرے شوہر گھر میں بجلی کا کام کر رہے تھے کہ اچانک تاروں میں اتنا زور سے کرنٹ آیا کہ ان کے ہاتھ تار سے بالکل جُڑ گئے۔ جب میں نے دیکھا تو فوری ان کو تار سے چھڑوانے کی کوشش کی۔ جب میں نے ان کو تاروں کی گرفت سے نکالا تو ان کا جسم بالکل نیلا کانچ ہو گیا تھا اور یہ بالکل ایسے ہوگئے جیسے ان کو فالج ہوگیا ہو۔ اس وقت میں اکیلی گھر پر تھی میں نے شور ہنگامہ مچایا اور محلے والوں کے ساتھ مل کر ان کو ہسپتال لے گئی۔
خاتون نے مذید بتایا کہ:” میرے شوہر 3 ماہ تک انڈس ہسپتال کے آئی سی یو میں رہے اور پھر جب ان کی کچھ حالت بہتر ہوئی تو ڈاکٹروں نے مجھے کہا کہ اب آپ اس کو نیروسرجن اور فزیوتھراپی کے لیے لے کر جائیں۔ ہمارے ہاں نیروسرجن دستیاب نہیں ہیں۔ ہم میں نے ان کو نجی ہسپتال میں بھی داخل کروایا لیکن اس کا خرچہ پہنچ سے زیادہ تھا۔ میں نے ڈاکٹروں سے بات کی تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہا ب آپ ان کو اپنے گھر لے جائیں اور وہاں ہسپتال والا بستر ہی لگائیں تاکہ مریض کو اٹھانے بیٹھانے میں آسانی ہو۔ میں نے بالکل ایسا ہی کیا۔ پہلےان کی صحت اچھی تھی، مجھے ان کو اٹھانے بیٹھانے میں بہت وقت لگتا تھا، میری چیخیں نکل آتی تھیں لیکن پھر میں اللہ کو یاد کرکے اپنے شوہر کو زبردستی اٹھا لیتی تھی۔ ان کو یورین بیگ تک لگا ہوا ہے اور کھانے پینے کے لیے نلکی لگی ہوئی ہے۔ اس نلکی سے صرف اور صرف دودھ اور دیگر لیکوئیڈز ہی اندر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے ان کو بکرے کی یخنی پلانے کا مشورہ دیا ہوا ہے۔ میں روزانہ ان کے لیے وہ یخنی بنا کر اسی نلکی کے ذریعے ان کے جسم میں داخل کرتی ہوں۔ ”
خرچوں سے متعلق بتاتے ہوئے خاتون نے بتایا کہ:” ان کا ایک ماہ کا خرچہ ا لاکھ سے زیادہ ہے۔ کبھی فزیوتھراپی کروانا تو کبھی مہنگی ادویات۔ ان کو ڈاکٹر نے جو دودھ پینے کا مشورہ دیا ہوا ہے وہ بہت مہنگا ہے۔ دودھ کا ایک ڈبہ جو پہلے 1500 میں مل جاتا تھا وہی اب 1700 اور 1900 میں مل رہا ہے۔ مہنگائی سے ان کے خرچے بھی ڈبل ہوگئے ہیں۔ میں لوگوں سے یہی کہتی ہوں کہ میری بچی کے مستقبل اور اس کے باپ کی زندگی کے لیے اگر کوئی میری مدد کرسکتا ہے تو کردے۔ میں اکیلی گھر کا خرچہ اٹھا رہی ہوں۔ کبھی کبھار میرے سسر اور بڑی نند خرچہ دے دیتے ہیں لیکن کبھی کبھار کے خرچے سے پورے ماہ کا خرچہ نکالنا بہت مشکل ہے۔ ”
بیٹی آنکھوں میں آنسو لیے کہتی ہے:” میرے بابا کب مجھ سے بات کریں گے، میں آواز سننے کے لیے بھی ترس گئی ہوں۔ مجھے بس اپنے بابا کے بستر سے اٹھنے کا انتظار ہے۔ کب بابا مجھے باہر گھمانے لے جائیں گے پہلے کی طرح مجھے گود میں اٹھا کر مجھ سے بات کریں گے، مجھے پیار کریں گے۔ ”
بچی کی والدہ نے یہ بھی کہا کہ:” میری بیٹی مجھ سے پوچھتی ہے کہ ماما جب بابا ٹھیک ہوں گے تو ہم بہت خوش ہوں گے نا، میں کہتی ہوں ہاں بیٹا ہم بہت خوش ہوں گے۔ لیکن پھر بیٹی کہتی ہے کہ ماما ہم دونوں ہی سب سے زیادہ روئیں گے۔ رونے کی وجہ جب میں اس سے پوچھتی ہوں تو کہتی ہے کہ ماما ہم نے ان کو سب سے زیادہ تکلیف میں دیکھا ہے نا، اب جب یہ ہم سے ملیں گے۔ ہم سے بات کریں گے تو ہماری آنکھوں میں وہ خوشی کے آنسو تو آئیں گے نا۔