کرپشن دکھائی تو مار مار کر میری پسلی تک توڑ دی ۔۔ اقرارالحسن کے ساتھ ہسپتال میں موجود صارم برنی اور وسیم بادامی بھی بول پڑے
صحافی اقرارالحسن کے ساتھ گذشتہ رات ایک حادثہ پیش آیا۔ جہاں ان کو پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران مارا پیٹا گیا اور شدید ظلم کیا گیا۔ جس کے بعد ان کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہسپتال سے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ اقرار کے ساتھ ہسپتال میں صارم برنی اور وسیم بادامی موجود رہے جن کے ساتھ اقرار آج صبح 6 بجے گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔وسیم بادامی نے ایک ویڈیو اپنے اکاؤنٹ پر شیئر کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ اب صبح کے 6 بج رہے ہیں۔ 500 مختلف ٹیسٹ ہونے کے بعد ہم گھر کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ جس پر اقرار کہتے ہیں کہ میرا کندھا اپنی جگہ سے ہل گیا ہے، پسلی ٹوٹ گئی ہے اور دل کی رپورٹ بھی نارمل نہیں آئی، میرا خیال ہے کہ گھر زیادہ صحیح رہے گا اس لیے اب میں گھر جانا چاہتا ہوں۔صارم برنی نے بھی اپنے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں کہتے ہیں کہ: ” جو شخص لوگوں کے لیے جی رہا ہو، لوگوں کے لیے لڑ رہا ہو اس کے ساتھ اتنا ظُلم کیا گیا۔ ”مذکورہ ویڈیو میں اقرار اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ” ایک ایوارڈ رہ گیا تھا، گولیاں اور گالیاں بھی، دھمکیاں بھی برداشت کیں، غدار بھی کہا، ایک چیز پہلی مرتبہ ہوئی کہ ہمیں باقاعدہ برہنہ کرکے ویڈیوز بنائی گئیں کہ اگر آپ ہماری ویڈیوز دکھائیں گے تو ہم آپ کی یہ نازیباں ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر دکھائیں گے، ہم اپنے ملک کے سارے اداروں کی قدر کرتے ہیں اور سب چاہتے ہیں کہ ادارے یہ ٹھیک ہوں گے تو ہی میری جو نسل ہے آنے والی وہ جب ہی ایک اچھے اور بہتر ماحول میں رہ سکیں گے۔ بڑے ادارے کے افسر 3 مرتبہ رشوت لیتے ہوئے دکھائی دیے۔ رشوت بھی آئی بی اے کے گیٹ پر کھڑے ہو کر لے رہے تھے۔ ہم ان کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے سوچا کہ ہم اس شخص کو ان کے ہیڈ کے پاس لے کر جائیں، ان کو دکھائیں اور بتائیں کہ ادارے میں کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ اس سے ادارے کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ہم پر ٹوٹ پڑے۔ اور ٹوٹے بھی ایسا کہ میرے سر پر ٹانکے لگے ہیں۔ باقاعدہ پستول کے بٹ (پستول کے پیچھے کا حصہ) خود افسر نے مجھے مارے۔ جو شخص خود رشوت خوری میں ملوث تھا وہ بتا رہا تھا کہ یہ شخص یہ بھی ہے، وہ بھی ہے، اس کو ماریں، اس کو ماریں۔ اور باہر جا کر ہمارے ڈرائیور کو بھی بلا کر لایا کہ آجاؤ اندر اندر سارے معاملات ٹھیک ہوگئے ہیں۔ ”انہوں نے یہ بھی کہا کہ:” رشوت لینے والا لیڈ کر رہا تھا جو لوگ ہمیں مار رہے تھے ان کو بتا رہا تھا کہ اس کو بھی مارو اور فلاں کو بھی مارو۔ اس کا سب سے اذیت ناک پہلو یہ تھا کہ شاید کسی بھی دشمن ملک کی ایجنسی یا ادارہ اتنا ظلم نہیں کرتا کہ ہمیں وہاں باقاعدہ مار مار کر میرا کندھا اپنی جگہ سے ہل گیا ہے۔ پیچھے سر پر بھی ٹانکے آئے ہیں۔ پورے جسم میں زخم ہیں۔ میرے باقی ٹیم ممبران کے زخموں کی حساسیت بھی میں آپ کو بتاتا ہوں۔ جب سب مار کٹائی ہوگئی تو ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ہمیں ایک ٹارچر سیل میں لے جایا گیا اور ہم نے ایک عجیب سی صورتحال دیکھی کہ ایک ایک کرکے سب کو ننگا کرنا شروع کر دیا کیونکہ ہم نے ان کی کرپشن بے نقاب کردی تھی اس لیے ہمیں برہنہ کرکے مختلف زاویوں سے ویڈیوز بنائی گئیں۔ تھوڑی دیر کے لیے برا لگا کہ میں کوئی ذاتی لڑائی یا دشمنی لڑ رہا تھا، اور مجھے کہا گیا کہ گھومو اور پوری ٹیم کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا گیا، تو دل نے آواز دی کہ نیک نیتی سے میں یہ جنگ لڑ رہا ہوں تو جو ہو رہا ہے اس کو برداشت کیا۔ مار پیٹ چلتی رہی 3 سے 4 گھنٹے ہم یوں ہی رہے۔ پھر وزیرِاعظم اور شہباز گل صاحب نے اس معاملے میں ہماری مدد کی۔ اس کے پہلے ہم نے جو بھی ریکارڈنگ کی وہ سب کیمرے اور موبائل توڑ دیے گئے۔ ”اقرار نے یہ بھی بتایا کہ: ” الحمدُللہ اچھی بات یہ ہے کہ بربریت کرنے والے سب لوگ معطل ہوگئے۔ یہ ادارہ اتنا ظالم فرعون ہے کہ اگر کوئی ان کے خلاف کچھ بھی کرے تو یہ اتنا ظلم کریں گے۔ ٹی وی پر آنے والے ایک شخص کے ساتھ یہ رویہ ہو رہا ہے جبکہ اندازہ ہے کہ اس پر شور مچے گا، سیاسی لوگوں کا عمل دخل بھی ہوگا۔ اگر میرے ساتھ ایسا ہے تو کسی عام انسان کا کیا ہوگا؟ صرف یہی نہیں میرے ٹیم ممبران اور مجھے الیکٹرک شاک ( جھٹکے ) دیے گئے۔ پستول کے زور پر ہم سے یہ سب کچھ کروایا گیا۔ ایک وقت جب میں نے منع کیا تو مجھے لگا کہ یہ کسی نہ کسی کو ٹیم میں سے مار دیں گے یا تو مجھے یا کسی اور کو، اس وقت سب کی جان بچانا بھی ضروری تھا۔”
تکلیف دہ مرحلہ بتاتے ہوئے صحافی نے کہا کہ: ” سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ ہمارے آڈیو انجینئر کے ساتھ ہوا وہ گردے کی تکلیف میں مبتلا ہیں، ان کے ساتھ ظلم کیا گیا ان کو گردے کی جگہ لاتیں اور گوسے مارے گئے وہ الٹیاں رک رہے تھے، تکلیف سے بلبلا رہے تھے ہم نے ان سے صرف یہ کہا کہ اس کو کسی ڈاکٹر کو دکھا دو، وہ بیہوش ہو رہے تھے، تڑپ رہے تھے اس کے باوجود ان کے ساتھ ظلم کیا گیا۔ ”