کیا خاتون گاڑی یا بائیک چلا سکتی ہے؟پڑھیے اسلامی تعلیمات کی روح سے ایک شاندار تحریر
ایک فی۔میل اسٹوڈنٹ کا سوال ہے۔کہ اسے اپنے گرلز کالج کبھی پبلک ٹرانسپورٹ اور کبھی رکشے پر جانا پڑتا ہے۔ وہ مکمل حجاب کرتی ہے۔ اور اگر وہ لیڈیز ڈیزائن کی بائیک لے لے تو نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ۔ رکشوں کے دھکے کھانے اور نامحرم مردوں کے ساتھ ٹکرانے سے بچ سکتی ہے۔ بلکہ اپنے سفری اخراجات میں کافی کمی کر سکتی ہے۔
بائیک اور اب مستقبل قریب میں الیکٹرک بائیک پر نہ صرف پیسوں کی کافی بچت ہو جاتی ہے۔بلکہ سفر کی مشقت بھی کم ہو جاتی ہے۔ اور کافی وقت بھی بچ جاتا ہے۔ ایسے میں آپ کی رائے میں ایک باحجاب لڑکی کا بائیک چلانا کیسا ہے؟
اسلام کا حکم
اگرچہ بعض علماء نے کچھ وجوہات سے گاڑی اور بائیک کی ڈرائیونگ سے عورتوں کو منع کیا ہے لیکن ہماری نظر میں شرعا یہ جائز ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ قریش کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں کیونکہ ان میں تین خصلتیں ہیں؛ ایک یہ کہ وہ اونٹ کی سواری کر لیتی ہیں، دوسرا یہ کہ اپنے شوہر کے بچوں کے لیے بہت شفیق ہوتی ہیں یعنی بعض تو اس کی وفات کے بعد بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کی خاطر شادی بھی نہیں کرتی ہیں اور تیسرا یہ کہ شوہر کے مال کو اجاڑتی نہیں ہیں۔تو عورتوں کو گاڑی اور بائیک چلانے سے منع کرنے کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے۔کہ اس میں مردوں سے مشابہت ہے لیکن یہ بے کار کی وجہ ہے۔ اس طرح کی مشابہتیں ڈھونڈنے لگیں
تو مرد اگر گھر میں برتن دھو لے یا کھانا بنا دے تو یہ عورتوں سے مشابہت ہو جائے گی اور عورت اگر ملازمت کر لے یا کاروبار کر لے تو یہ مردوں سے مشابہت ہو جائے گی۔ حدیث میں جس مشابہت سے منع کیا گیا ہے، وہ جسمانی اور لباس کی مشابہت اختیار کرنا ہے نہ کہ کام کی۔دوسرا اعتراضیہ کیا گیا کہ بائیک یا گاڑی چلانے میں عورت بے حجاب ہو جاتی ہے۔ رہی یہ بات کہ اس پر مردوں کی نظر پڑے گی تو وہ تو پیدل چلتی عورت پر بھی پڑتی ہے لہذا جب اسے حجاب کے ساتھ گھر سے نکلنے کے جواز کا فتوی دے دیا ہے تو اب یہ بے کار کی بحث ہے کہ وہ پیدل نکل سکتی ہے