گرتی معیشت اور ٹیکس میں اضافہ۔۔ کیا عام پاکستانی آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہے؟
اگر آپ مارکیٹ میں سودا لینے جاتے ہیں تو اس بات کا علم آپ کو بھی ہوگا کہ پہلے کے مقابلے میں چیزیں کم سے کم خریدنے کے باوجود خرچ ہونے والے پیسوں کی تعداد ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ کوئی کہاں تک اپنی ضروریات کو مارے؟ باورچی خانے کا عام سامان آٹا، دال، چاول ہو یا ٹی وی، فریج جیسے ضروری الیٹرانک آلات پچھلے چند سالوں میں سب کی قیمتیں تین گنا تک بڑھ چکی ہیں۔
اسی جاں بہ لب صورت حال میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو ایک ارب ڈالر (ایک سو پچھتر ارب پاکستانی روپے) کی قسط جاری کی گئی ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ بیرون ملک قرضے لینے کے بعد ملک میں مہنگائی کس قدر بڑھ جاتی جبکہ اس بار آئی ایم نے قرضہ دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دو ٹوک موقف اور سخت شرائط بھی رکھی ہیں۔ تو آئیے جانتے ہیں آئی ایم ایف نے کون سی شرطیں رکھی ہیں اور ایک عام پاکستانی ان سے کس حد تک متاثر ہونے والا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط
عالمی مالیاتی ادارہ 1944 میں بنایا گیا یہ ادارہ ان ممالک کو قرضے دیتا ہے جو اس سے قرض دینے کی درخواست کرتے ہیں ساتھ ہی وہ اس بات کی یقین دہانی بھی کرتا ہے کہ قرض لینے والا ملک ادارے کے پیسے لوٹا سکے۔ اس سلسلے میں وہ قرض دینے والے ملک کی معاشی صورت حال کا مکمل جائزہ لیتے ہوئے انھیں آگے کا لائحہ عمل بھی تیار کرکے دیتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کن سیکٹرز میں ٹیکس لگا کر زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کیا جاسکتا ہے۔
بجٹ کم اور ٹیکس میں اضافہ
اس بار بھی آئی ایم ایف نے جن شرائط پر مبنی لائحہ عمل تیار کیا ہے اس میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ انکم ٹیکس استثنا ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ غریب لوگوں کو سبسڈی دینی ہے تو احساس پروگرام کے ذریعے دی جائے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں پاکستان کے اگلے بجٹ میں 143ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے کی اطلاع دی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگلے سال کا ترقیاتی بجٹ بھی 627ارب روپے سے کم کر کے 554ارب روپے کر دیا جائے گا۔
ٹیکس کے علاوہ دوسرے طریقوں پر بھی غور کیا جائے
آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ “ پاکستان کو صرف ٹیکس بڑھانے کے علاوہ ملکی معیشت کے پہیے کو چلانے کے لئے دوسرے طریقوں پر بھی غور کرنا چاہئیے اور پالیسیز مرتب کرنی چاہئیں۔
پاکستانی عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟
آئی ایم ایف نے حالیہ حکومت کے لئے جس 6 ارب کے قرضے کا وعدہ کیا تھا اس کی آدھی رقم اب تک دی جاچکی ہے اور آدھی ملنا باقی ہے۔ آئی ایم ایف کی پاکستان کو دی گئی تنبیہہ کے مطابق جون کے مہینے تک ان شرائط پر عمل شروع ہوجانا چاہئیے جس کے بعد بجلی اور گیس کے زائد نرخوں سے عوام پر بہت زیادہ مالی بوجھ بڑھ جائے گا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ باقی کی رقم ملنے کے بعد بھی مہنگائی میں کئی بار اضافے کی توقع ہے۔
کیا اب قرضوں سے ہی ملک چلے گا؟
دوسری جانب زراعت سے لے کر دوسرے کسی بھی شعبے کے حوالے سے نہ کوئی حکومتی پالیسی نظر آرہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اب حکومت کا ملک کو اپنے پیر پر کھڑا کرنے کے بجائے صرف قرضوں پر ہی معیشت چلانے کا چلانے کا ارادہ ہے۔ حکومت سے یہی التجا ہے کہ بروقت ٹھوس اقدامات کرے اور آنے والے دنوں میں غریب عوام پر جو بوجھ پڑنے والا ہے اس کا سدباب کرنے کی کوشش کرے۔