کسی کی قبر کا کتبہ ٹیڑھا ہو گیا تو کسی کی والدہ کی قبر کو گرا رہے تھے ۔۔ ان مشہور شخصیات کی قبر کے کتبے سب کو افسردہ کیوں کر دیتے ہیں؟

سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات سے متعلق کئی ایسی معلومات موجود ہیں جو کہ سب کو افسردہ کر دیتی ہیں، لیکن کچھ ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں لوگ جاننا چاہتے ہیں۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔

کلثوم نواز:

پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق خاتون اول کلثوم نواز نے اپنی زندگی میں بے حد مشکلات کا سامنا کیا تھا، چاہے نجی زندگی ہو یا پھر سیاسی زندگی دونوں ہی میں کچھ ایسے مسائل سے دوچار رہیں جن کا مقابلہ سابق خاتون اول نے ڈٹ کر کیا۔

کلثوم نواز کا انتقال کینسر جیسے موذی مرض کی وجہ سے ہوا تھا، والدہ کے انتقال پر مریم نواز شدید صدمے میں تھیں۔ کلثوم نواز کے چہرے پر آخری وقت تک مسکراہٹ تھی اور ہمت اور حوصلہ عیاں تھا۔

لیکن ان کی قبر جو کہ رائیونڈ میں واقع ہے، صرف ایک عام قبر جیسی ہی ہے، جس پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔ البتہ پھولوں کی پتیاں مرحومہ کی قبر پر موجود ہوتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ صرف خاندانی قبریں ہونے کی وجہ سے کتبے نہ بنوائے گئے ہوں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان:

محسن پاکستان اور عالمی توجہ حاصل کرنے والے سائنسدان عبدالقدیر خان گزشتہ سال خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ محسن پاکستان نے اپنی پوری زندگی میں سوائے حلال رزق کھانے کے اور ایک سادہ زندگی گزارنے کے اور کسی دوسری جانب دھیان نہیں دیا۔

یہی وجہ تھی کہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قبر پر موجود تختی پر بھی ان کا خطاب محسن پاکستان لکھا ہوا ہے جبکہ ساتھ ہی انگریزی میں بھی ان کا نام درج ہے۔ محسن پاکستان کی قبر پر ہر دوسرے روز پھول موجود ہوتے ہیں۔

معین اختر:

معروف پاکستانی کامیڈین اور اداکار معین اختر کی قبر دیکھ کر معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ انہی کی قبر ہے۔ کیونکہ اس قبر کی حالت چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ اسے دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

ان کی قبر کے کتبے پر بھی ان کا نام اور تاریخ وفات لکھا گیا ہے۔ جبکہ تختی بھی ٹیڑھی معلوم ہو رہی ہے۔

عمران خان کی والدہ:

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی والدہ سے بے حد پیار کرتے تھے، والدہ کو یاد کر کے آج بھی عمران خان کی آنکھوں میں آنسوں آ جاتے ہیں۔

عمران خان کی والدہ کینسر جیسے خطرناک مرض میں مبتلا ہو کر جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں، لاہور میں واقع ان کی قبر اس وقت خبروں میں آ گئی تھی، جب انسداد تجاوزات کے ادارے نے مرحومہ شوکت خانم کی قبر کے احاطے میں موجود کچھ حصے کو گرانے کی کوشش کی۔

عمران خان کی والدہ شوکت خانم کی قبر پر مٹی کا رنگ کیا گیا ہے جبکہ قبر کی بناوٹ کچھ اس طرح ہے کہ پرانے زمانے کی معلوم ہوتی ہے، مرحومہ کی قبر کے کتبے پر بھی ان کا نام دیکھا جا سکتا ہے۔

علامہ شاہ احمد نورانی:

مشہور و معروف مذہبی رہنما علامہ شاہ احمد نورانی کا شمار ان چند رہنماؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے پاکستان اور اسلام کی خاطر گراں قدر خدمات پیش کی تھیں، علامہ نے ہمیشہ ہی مذہبی رواداری اور بھائی چارگی کا درس دیا تھا۔

ان کی قبر کے کتبے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا نام اور لقب لکھا گیا ہے۔ جبکہ قبر پر موجود پھولوں اور پودے سے معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے چاہنے والے ہر موسم میں فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔

وحید مراد:

وحید مراد پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور ترین اداکار تھے، وحید مراد کی شہرت ان کی اداکاری کے ساتھ ساتھ ان کا خطاب بھی تھا یعنی چاکلیٹی ہیرو۔

ان کے قبر کے کتبے پر بھی چاکلیٹی ہیرو وحید مراد مرحوم لکھا ہے جبکہ نیچے ہی ایک شعر بھی موجود ہے۔

اس شعر میں لکھا ہے کہ خدا کی تجھ پر رحمت ہو، محمدﷺ کا تجھ پر سایہ ہو، دعا میری سدا یہ ہے کہ تجھے جنت کی راست ہو۔

فاطمہ جناح:

فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد قبر تیار ہونے میں 12 گھنٹے لگ گئے تھے، یہ 12 گھنٹے بھی ایک ایسی وجہ سے گے جو کہ عوام کے غم و غصہ اور دباؤ کی بنا پر تھے۔ دراصل فاطمہ جناح کی خواہش تھی کہ انہیں قائدا اعظم محمد علی جناح کے برابر میں دفنایا جائے مگر بقول مرزا ابوالحسن اصفہانی کے، حکومت انہیں میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی۔

مرزا اصفہانی نے اس اقدام کی مخالفت بھی کی اور اس خطرہ سے بھی آگاہ کیا کہ اگر محترمہ کو قائداعظم کے برابر میں نہ دفنایا گیا تو خراب صورتحال کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔ عوام میں اس وقت ایک ایسی جذباتی کیفیت تھی جو کہ انہیں محترمہ کے خلاف کسی بھی اقدام پر بھڑکا سکتی تھی۔

کیونکہ اس وقت محترمہ فاطمہ جناح عوام میں مقبولیت حاصل کر چکی تھیں۔ اس حوالے سے کمشنر کراچی نے فاطمہ جناح کے خاندانی افراد اور قائداعظم کے پرانے ساتھیوں سے مشورہ کیا، اسی طرح حکومت سے بھی اس حوالے سے رابطہ کیا گیا۔ اور پھر رات گئے حکومت کی جانب سے محترمہ فاطمہ جناح کو قائد اعظم کے برابر میں دفنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

فاطمہ جناح کی قبر قائداعظم محمد علی جناح کے مزار سے ایک سو بیس فُٹ دور بنائی گئی۔ قبر کی لمبائی چھ فُٹ جبکہ چوڑائی تین فُٹ تھی۔ چونکہ زمین پتھریلی تھی اور باآسانی کھودنا مشکل تھا، اسی لیے بجلی سے چلنے والے آلات کا استعمال کیا گیا تھا۔ محترمہ کی قبر کشائی کے لیے بیس گورکنوں نے حصہ لیا تھا، جس کی قیادت 60 سالہ عبدالغنی کر رہے تھے جنہوں نے قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان کی قبر کشائی بھی کی تھی۔

چونکہ زمین پتھریلی تھی یہی وجہ تھی کہ قبر کو تیار کرنے میں 12 گھنٹے لگ گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں