کہیں لوگ ایک ایک لقمہ کو ترستے ہیں۔۔ شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں اتنا ہی کھانا ڈالیں جتنا کھا سکیں

آجکل شادی بیاہ کی تقریبات صبر کا امتحان ہو گئی ہیں۔ ڈھولکی، شندی، برائیڈل شاور، بارات اور پتا نہیں کیا کیا۔۔۔۔ان شاہانہ تقریبات کو دیکھ کر ہم کہیں سے تیسری دنیا کی قوم نہیں لگتے بلکہ فرسٹ ورلڈ میں تو دلہن کا جوڑا بھی کرایہ کا ہوتا ہے۔ اور وہاں مہمانوں سے شادی کے اخراجات کی contribution وصول کی جاتی ہے۔

امراء کے لئے یہ آسان ہے لیکن ایک مڈل کلاس سفید پوش انسان ان اخراجات کو کیسے پورا کرے۔ ابھی جہیز کی لعنت کم تھی کہ ہم مزید دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ آخر ہم کب تک ان دکھاوؤں کے لئے اپنے آپ کو اذیت میں رکھیں گے جس کا حاصل کچھ بھی نہیں۔

ایک شادی کی تقریب میں جانا ہوا اللہ اللہ کر کہ رات دو بجے کھانے کا وقت آیا۔ کھانا کھلتے ہی لگا جیسے لوگ برسوں کے بھوکے ہیں ایک خاتون نے تو حد کر دی ہر ڈش الگ الگ پلیٹوں میں لے آئئں اور مشکل سے انھوں نے ان پلیٹوں سے 10٪کھایا یعنی باقی کا کھانا سب ضائع گیا۔۔

دکھ ہوا دل میں آیا کہ کاش یہ کھانا کسی فاقہ زدہ انسان کی پیٹ کی زینت بن جاتا۔۔ مجھے جاپان میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہاں میں نے رزق کی بہت قدر دیکھی ہے۔ ایک دفعہ میری ایک جاپانی دوست میرے گھر آئی میں نے کافی کے ساتھ لوازمات رکھے، اس کی بیٹی نے کیک کا ایک پیس لیا تھوڑا کھایا اور باقی پلیٹ میں چھوڑ دیا۔ اس کی امی یعنی میری دوست نے اپنی چار سالہ بچی کو لیکچر دیا کہ تم نے اپنے پیٹ سے زیادہ کیوں لیا اور پھر بچی کو کہا کہ اس کیک پیس کو ٹشو میں رکھ کر مجھے دو۔ اور پھر ماں نے وہ پیس اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ لیا اور مجھے بہت شرمندگی کے ساتھ gominnay (معاف کرنا)کہا۔ تربیت کا یہ انداز اتنا اچھا لگا کہ شئیر کرنے کا دل چاہا۔

اس میں شک نہیں کہ ہم شادی بیاہ کے موقع پر اپنی دولت کی نمائش کو باعث فخر خیال کرتے ہیں، بالخصوص کھانے کے موقع پر کھانے پینے کے معاملات میں بہت غیر محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب کھانے کے دوران کسی کا لقمہ گر جائے تو چاہیے کہ اسے اٹھائے اور اس سے لگی آلودگی کو دور کر کے اسے کھا لے، اسے شیطان کے لئے نہ چھوڑ دے۔‘‘

لیکن جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو آج کل شادی کا مطلب 7 سے 8 فنکشن کرنا ہے۔ جنہیں پاکستانی معاشرے نے پڑوسی ملک بھارت سے اپنایا ہے۔ ان فنکشنز میں وہ تمام غیر ضروری رسومات ادا کی جاتی ہیں جو ہندو مذہب کے ماننے والے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شادیوں میں بے پناہ ناچ گانے کو فروغ دے کر ماڈرن ہونے کا دکھاوا کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف شادیوں میں 70 طرح کے کھانے رکھ کر امیر ہونے کا دکھاوا کیا جاتا ہے۔

شادی جیسے سادہ اور اہم اسلامی فریضے کو دکھاوے کی شکل دے کر مشکل بنانے میں اگر ایک طرف ہمارے معاشرے کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ تو دوسری طرف اس دکھاوے اور فالتو کی شو شا کو پروان چڑھانے میں مارننگ شوز اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ غرض کوئی بھی ہم سے زبردستی تو یہ نہیں کرواتا کسی حد تک اس اسراف کو روکنا ہمارے ہاتھوں میں ہیں اگر ہم سب اپنی اپنی جگہ ٹھان لیں کہ ہم سادگی کو اپنا شعار بنائیں گے تو آہستہ آہستہ معاشرے میں سدھار آتا جائے گا صرف ہر شخص کو اس شعور کو پھیلانے کے لئے پہل کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں